بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے تشدد کرنے کی صورت میں خلع اور تنسیخِ نکاح کا شرعی طریقہ


سوال

میں نے اپنی بیٹی کی شادی اس کی مرضی کے مطابق کی تھی،شادی کے چھ ماہ پورے ہونے والے تھے کہ میاں بیوی کے درمیان لڑائی جھگڑے ہونے لگے،لڑکا میری بیٹی کو مارتا تھا،ایک دن ایسا ہوا کہ سسرال والوں نے اس (بیٹی) کو گھر سے نکال دیا،پھر کئی دن میکے میں رہی،پھر ہم نے شوہر کے حوالے کردیا، لیکن شوہر اس پر مسلسل تشدد کرتا رہا،تقریباً چار سے پانچ مرتبہ میری بیٹی شوہر کے تشدد اور گھر سے نکالنے کی وجہ سے میکے میں رہنے لگی،شوہر پھر آتا تھا اور کہتا تھا کہ آئندہ ایسا نہیں کروں گا لیکن اس کے باوجود شوہر اس پر تشدد کرتا ہے،دوسری بات یہ ہے کہ شوہر نان و نفقہ بھی ادا نہیں کرتا اور بچوں کا خرچہ بھی نہیں دیتا،اب بیٹی ہمارے پاس ہے۔

پوچھنا یہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟تنسیخِ نکاح یا خلع کی کیا صورت ہوسکتی ہے تاکہ ہم اپنی بیٹی کا دوسری جگہ نکاح کر سکیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کی بیٹی کا شوہر اگر اپنے اس رویہ سے باز نہیں آتاتو  بیٹی اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے اگر وہ طلاق دے دے تو ٹھیک،لیکن اگر وہ طلاق دینے پر آمادہ نہیں ہوتا تو   بیٹیاپنا حق مہر معاف کر کے  یا مہرواپس کرنے کی شرط پر  شوہر سے خلع کا مطالبہ کرسکتی ہےاگر شوہر اس کو قبول کر لے تو وہ خلع  شرعا معتبر ہوگا اور اس کے ذریعہ ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی  ،اور اگر شوہر خلع کو قبول نہ کرے تو خلع ،معتبر نہیں ہوگا کیوں کہ خلع میں میاں بیوی کی رضامندی ضروری ہے۔ایسی صورت میں سائل کی بیٹی عدالت کے ذریعہ اپنا نکاح فسخ کراسکتی ہےاس کا طریقہ یہ ہوگا کہ  بیٹی عدالت میں اس بات کا دعوی کرے کہ  شوہر  اس پر تشدد کرتا ہے اور  نفقہ  (خرچہ )نہیں دیتا ، اور اس بات کوشرعی گواہی کے ذریعہ  ثابت کرے،عدالت  مذکورہ معاملہ کی مکمل تحقیق کرے گی ،اگر عورت کا دعوی  شرعاًصحیح ثابت ہوجائے   تو  شوہر سے کہا جائے گا کہ اپنے اس رویہ سے باز آجائے اور  بیوی کا نان و نفقہ ادا کرے یا طلاق دے ،ورنہ ہم دونوں کے درمیان تفریق کردیں گے،اگر وہ کسی بات پر بھی عمل کرنے پر راضی نہ ہو تو عدالت  نکاح  کو فسخ (ختم)کردے گی ،جس کے بعد بیٹی اپنی عدت(مکمل تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو ،اور حمل کی صورت میں بچے کی ولادت  تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

وفی المبسوط للسرخسی:

"والخلع جائز عند السلطان وغیره لأنه عقد یعتمد التراضی کسائر العقود وهو بمنزلة الطلاق بعوض."

 (باب الخلع،6/ 173،ط:دار الفکر)

وفي الشامية:

"(قوله: للشقاق) أي لوجود الشقاق وهو الاختلاف والتخاصم. وفي القهستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما، فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع. اهـ. ط، وهذا هو الحكم المذكور في الآية، وقد أوضح الكلام عليه في الفتح آخر الباب."

(باب الخلع،3 /441،ط:سعید)

حیلہ ناجزۃ میں ہے :

"والمتعنت الممتنع عن الانفاق  ففی مجموع الامیر ما نصه : ان منعها   نفقة الحال فلها القیام فان لم   یثبت عسره  انفق او طلق  و الا طلق عليه  ، قال محشيه : قوله   والا طلق عليه ای   طلق عليه الحاکم من غیر تلوم…..الی ان قال: وان تطوع بالنفقة قریب اواجنبی فقال ابن القاسم:لها ان تفارق  لان الفراق قد وجب لها،  وقال ابن عبدالرحمن:  لا مقال لها لان سبب الفراق  هو عدم النفقة   قد انتهي وهو الذی   تقضيه المدونۃ  کما قال ابن المناصب، انظر الحطاب، انتهي."

(فصل فی حکم زوجة المتعنت،ص:72، 150،ط:دار الاشاعت)

وفی تکملة فتح الملهم:

"ولکنها لم تسد باب الفرقة  من جهة المرأة بالكلية ،وانما اباحت لها  ذلك في ظروف خاصة ،الي قوله فلها ان تطلب من القاضي اذا كان زوجها عنينا او مجنونا او متعنتا او مفقودا."

(كتاب الطلاق،100/1،ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100266

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں