بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے انتقال کے بعد بیوہ عدت کہاں گزارے؟


سوال

میرے بہنوئی کی وفات ہو چکی ہے۔ بہنوئی کے والدین کافی عرصہ پہلے وفات پا چکے ہیں۔ اب اس گھر میں صرف ایک جیٹھ اور ایک دیور موجود ہیں جو کہ نامحرم ہیں۔ کیا ان کی  موجودگی میں ہمشیرہ کےلیے ضروری  ہے کہ وہ اسی گھر میں عدت پوری کریں۔ یا وہ اپنے میکے میں بھی عدت کے ایام گزار سکتی ہیں؟

جواب

عام حالات میں دورانِ عدت رہائش منتقل کرنا جائز نہیں ہے، لہذا جب تک ممکن ہو  عدت کے دوران مرحوم شوہر  کے گھر  سے منتقل نہ ہوں، دیور اور جیٹھ سے شوہر  کی زندگی میں بھی اور دورانِ عدت بھی پردہ کا حکم ہے، پس عدت کے دوران دیور اور جیٹھ سے پردہ کرنے کا اہتمام کرنا ضروری ہوگا، اگر ان کی بیویاں نہ ہوں تو  بیوہ کو چاہیے کہ عدت کی تکمیل تک  تنہائی کی  وحشت سے بچنے  کے لیے یا اسے کسی قسم کی تعدی کا خطرہ محسوس ہو تو  کسی بزرگ محرم (مثلاً والد) یا اپنی والدہ یا خاندان کی کسی بزرگ خاتون کو  گھر پر ٹھہرالیں۔

ملحوظ رہے کہ اگر گھر کرائے کا ہو اور کرایہ کا کوئی بندوبست نہ ہورہا ہو، مالک مکان، مکان خالی کروادے  یا  گھر فروخت کردیا گیا ہو اور خریدار مہلت نہ دے رہا ہو تو اس صورت میں عدت کی تکمیل سے پہلے کسی اور  گھر میں منتقلی کہ ا جازت ہوتی ہے، تاہم منتقلی کے بعد بھی   عدت کی وہی پابندیاں  نئے گھر میں لاگو ہوں گی جو پہلے میں لاگو تھیں۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 205):

"وأما في حالة الضرورة فإن اضطرت إلى الخروج من بيتها بأن خافت سقوط منزلها أو خافت على متاعها أو كان المنزل بأجرة ولا تجد ما تؤديه في أجرته في عدة الوفاة فلا بأس عند ذلك أن تنتقل، وإن كانت تقدر على الأجرة لا تنتقل، وإن كان المنزل لزوجها وقد مات عنها فلها أن تسكن في نصيبها إن كان نصيبها من ذلك ما تكتفي به في السكنى وتستتر عن سائر الورثة ممن ليس بمحرم لها، وإن كان نصيبها لايكفيها أو خافت على متاعها منهم فلا بأس أن تنتقل، وإنما كان كذلك؛ لأن السكنى وجبت بطريق العبادة حقا لله تعالى عليها، والعبادات تسقط بالأعذار، وقد روي أنه لما قتل عمر - رضي الله عنه - نقل علي - رضي الله عنه - أم كلثوم - رضي الله عنها - لأنها كانت في دار الإجارة، وقد روي أن عائشة - رضي الله عنها - نقلت أختها أم كلثوم بنت أبي بكر - رضي الله عنه - لما قتل طلحة - رضي الله عنه - فدل ذلك على جواز الانتقال للعذر، وإذا كانت تقدر على أجرة البيت في عدة الوفاة فلا عذر، فلا تسقط عنها العبادة كالمتيمم إذا قدر على شراء الماء بأن وجد ثمنه وجب عليه الشراء وإن لم يقدر لايجب لعذر العدم.

كذا ههنا، وإذا انتقلت لعذر يكون سكناها في البيت الذي انتقلت إليه بمنزلة كونها في المنزل الذي انتقلت منه في حرمة الخروج عنه؛ لأن الانتقال من الأول إليه كان لعذر فصار المنزل الذي انتقلت إليه كأنه منزلها من الأصل فلزمها المقام فيه حتى تنقضي العدة". فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144110201122

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں