میرے شوہر نے چار سال پہلے مجھے فون پر طلاق دے دی تھی، طلاق کے الفاظ یہ تھے:”تجھے میں طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتاہوں“، اب وہ مجھے دھمکیاں دے رہا ہےکہ میرے ساتھ رہو، میرے ساتھ شادی کرلو،اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہا ہے، یہ دھمکی کے الفاظ انہوں نے ایک تقریب میں کہے تھے، شریعت کی روشنی میں میری راہ نمائی فرمائیں کہ اس کا کیا حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً چار سال پہلے سائلہ کو شوہر نے فون پر یہ الفاظ کہے تھے کہ :”تجھے میں طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتاہوں“ تو ان الفاظ سے سائلہ پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئی تھیں، اور سائلہ اسی وقت شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی تھی، اور ان دونوں کا نکاح ٹوٹ گیا تھا، لہذا سابق شوہر کے لیے بیوی(سائلہ) سے رجوع کرنا، یا دوبارہ نکاح کرنا حرام ہے،لہذا مذکورہ واقعہ کے چار سال بعد سابق شوہر کا سائلہ کو نکاح کرنے پر مجبور کرنا، اور جان سے مارنے کی دھمکی دینا حرام ہوگا، پس قانونی طور پر تحفظ حاصل کرنے کے لیے سائلہ عدالت سے بھی رجوع کرسکتی ہیں۔
قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے:
"{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ} ."(البقرة: 230)
ترجمہ:"اگر بیوی کو تیسری طلاق دے دی تو جب وہ عورت دوسرے سے نکاح نہ کرلے اس وقت تک وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہوگی۔" (بیان القرآن)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"(وأما البدعي) فنوعان بدعي لمعنى يعود إلى العدد وبدعي لمعنى يعود إلى الوقت (فالذي) يعود إلى العدد أن يطلقها ثلاثًا في طهر واحد أو بكلمات متفرقة أو يجمع بين التطليقتين في طهر واحد بكلمة واحدة أو بكلمتين متفرقتين فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيًا."
(کتاب الطلاق، الطلاق البدعی، ج:1، ص:349، ط:دار الفکر بیروت)
وفیه أیضا:
"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا و يدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية. و لا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولًا بها أو غير مدخول بها، كذا في فتح القدير. و يشترط أن يكون الإيلاج موجبًا للغسل و هو التقاء الختانين، هكذا في العيني شرح الكنز. أما الإنزال فليس بشرط للإحلال."
( كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج:1، ص:473، ط:دار الفكر بیروت)
بدائع الصنائع میں ہے:
"أما الصريح فهو اللفظ الذي لا يستعمل إلا في حل قيد النكاح ، وهو لفظ الطلاق أو التطليق مثل قوله : " أنت طالق " أو " أنت الطلاق ، أو طلقتك ، أو أنت مطلقة " مشددا."
(کتاب الطلاق، فصل في النية في أحد نوعي الطلاق وهو الكناية، ج:3،ص:101، ط:دار الكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث."
(کتاب الطلاق، ج:3، ص:233، ط:سعید)
وفیه أیضا:
"(وهي في) حق (حرة) ولو كتابية تحت مسلم (تحيض لطلاق) ولو رجعيا (أو فسخ بجميع أسبابه)....(بعد الدخول حقيقة، أو حكما) أسقطه في الشرح، وجزم بأن قوله الآتي " إن وطئت " راجع للجميع (ثلاث حيض كوامل) لعدم تجزي الحيضة، فالأولى لتعرف براءة الرحم، والثانية لحرمة النكاح، والثالثة لفضيلة الحرية...(و) العدة (في) حق (من لم تحض) حرة أم أم ولد (لصغر) بأن لم تبلغ تسعا (أو كبر).....(ثلاثة أشهر) بالأهلة لو في الغرة وإلا فبالأيام بحر وغيره (إن وطئت) في الكل ولو حكما كالخلوة ولو فاسدة كما مر."
(كتاب الطلاق، باب العدة، ج:3، ص:504-510، ط: سعيد)
وفیه أیضا:
"(و) في حق (الحامل) مطلقا ولو أمة، أو كتابية، أو من زنا بأن تزوج حبلى من زنا ودخل بها ثم مات، أو طلقها تعتد بالوضع جواهر الفتاوى (وضع) جميع (حملها)."
(كتاب الطلاق، باب العدة، ج:3، ص:511، ط: سعید)
النتف فی الفتاوی میں ہے:
"واما الاكراه على المعاصي فهو علي ثلاثة اوجه
في النفس فيكره الرجل على قتل انسان او قطع عضوه او ضربه او جرحه او ان يزني به او يلوط فلايجوز له ان يفعل شيئا من هذه الاشياء ولايسعه ذلك وان قتل او ضرب"
(کتاب الاکراہ، ج:2، ص:699، ط:مؤسسة الرسالة - بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608101201
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن