بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے حق تلفی کرنے کی صورت میں بیوی کیا کرے؟


سوال

اگر شوہر بیوی کے حقوق ادا نہ کرتا ہو، دوسری عورتوں سے غیر اخلاقی گفتگو کرتا ہو، بیوی کو ہر وقت ذہنی اذیت دیتا ہو اور جسمانی طور پر مارتا ہو، ہر روز گھر سے نکالنے کی دھمکی دے اور روز یہ کہے دفع ہوجاؤ  تو بیوی کو کیا کرنا چاہیے؟

جواب

میاں بیوی کا رشتہ برداشت اور مفاہمت سے ہی چل سکتا ہے، عموماً غلطی جانبین سے ہوتی ہے، اگر شوہر کی ہی غلطی ہو یا طبعی طور پر اس میں غصہ زیادہ ہو تو بھی نرمی اور حکمت سے اسے سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے، جس وقت وہ غصہ ہو اس وقت خاموش رہا جائے، بعد میں مناسب انداز میں بات سمجھا دی جائے۔ اگرحکمت و تدبیر سے سمجھانے کے باوجود وہ نہ سمجھے تو بھی برداشت اور مفاہمت سے کام لینا چاہیے، اور اِس رُخ پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اگر اس میں ایک خرابی یا برائی ہے تو بہت سی اچھائیاں بھی ہوں گی، یہ بھی سوچیں کہ شوہر کو اللہ تعالیٰ نے نگہبان بنایا ہے، وہ بیوی کے نفقے اور دیگر ضروریات پوری کرنے کے ساتھ اس کی عزت و عفت کا بھی محافظ ہے، ان امور پر غور کریں تو امید ہے کہ معاملات بہتر ہوجائیں۔

غصے کے دوران بات کرنے کی بجائے جب معاملہ ٹھنڈا ہو تو بات کیا کریں، باقی اللہ تعالیٰ سے بھی دعا کریں، گالی دینا واقعۃً بہت بری عادت اور گناہ کی بات ہے، جسے گالی دی جائے اس کی عزتِ نفس بھی مجروح ہوتی ہے، اس کی ایذا کا سبب بھی ہوتاہے، جو کہ حرام ہے، لیکن صبر و تحمل اور عفو درگزر سے ان مشکلات سے نکلا جاسکتاہے۔

جہاں تک بات ہے شوہر کے بیوی کو جسمانی طور پر مارنے کی، تو اگر واقعتًا بیوی کا قصور نہ ہو تو شوہر کو مارنے کی بالکل اجازت نہیں ہے، البتہ اگر بیوی کا قصور ہو تو اولاً اسے زبانی نصیحت کرنی چاہیے، نہ مانے تو گھر کے اندر بستر جدا کردینا چاہیے، پھر بھی باز نہ آئے اور نافرمانی کرے تو تادیب و تنبیہ کے لیے معمولی سی مار کی اجازت ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ چہرے یا جسم کے کسی کم زور حصے میں نہ مارے، اور تین مرتبہ سے زیادہ نہ مارے، اور ایسی  ضرب نہ مارے جس سے جسم پر نشان پڑے۔ اگر اس سے زیادہ مارے گا تو شوہر ظالم ہوگا۔ حدیث پاک میں ایسے شوہروں کے بارے میں ہے کہ یہ اچھے لوگ نہیں ہیں۔

بہرحال اگر شوہر اجنبی عورتوں سے گفتگو کرتاہے تو بیوی کو دیکھنا چاہیے کہ اگر وہ براہِ راست سمجھائے گی تو اس کی بات قبول کرے گا یا نہیں؟ جو صورت قرینِ مصلحت ہو وہ اختیار کی جائے، اگر خود کہنے میں مزید فساد کا اندیشہ ہو تو کسی ایسے فرد کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی جائے جس کے سمجھانے سے شوہر کی اصلاح بھی ہوجائے اور بگاڑ بھی پیدا نہ ہو۔ نیز بیوی کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے مسلسل رجوع رکھے اور خیر و اِصلاح کی دعا کرتی رہے، ان شاء اللہ وہ ضرور فریاد سنے گا۔ 

اگر معاملات بیوی کی قدرت سے باہر ہوں تو رشتوں کی نزاکت اور احساس رکھنے والے خاندان کے سمجھ دار بزرگوں کو مطلع کرکے معاملات کا حل نکالا جائے۔

﴿ومن آیاته ان خلق لکم من انفسکم ازواجاً لتسکنوا الیها وجعل بینکم مودة ورحمة﴾․ [الروم:21]

ترجمہ: اللہ  کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں، تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اورر حمت پیدا کردی۔

بیوی  اگر درج ذیل آیت  آپس کی محبت کے اضافے کی نیت سے پڑھتی رہا کرے تو ان شاء اللہ یہ بھی مفید ثابت ہوگا:

﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا [مریم: 96]

فقط واللہ  اعلم


فتوی نمبر : 144201200486

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں