میں اپنے شوہر سے خلع لینا چاہتی ہوں،اور مجھے سسرال والوں کی طرف سے ہدیہ کے طور پر زیور ملاتھا اب سسرال والے یہ زیور نہیں دے رہے ہیں،اب یہ زیور کس کی ملکیت ہیں؟اور اگر میری ملکیت ہے تو ان کے نہ دینے کی وجہ سے ان پر کیا وبال آئے گا؟
اگر زیور ہدیہ کی صراحت کے ساتھ دیا گیا تھا تو شرعا وہ بیوی کی ملکیت ہے،اس صورت میں اگر سسرال والے زیور نہیں دے رہے تو ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا،احادیث مبارکہ میں ناحق مال کھانے والوں کے بارے میں بہت سخت وعیدات وارد ہوئی ہیں،حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ : رسول اللہ ﷺ نے صحابہ رضوان اللہ علیہم سے دریافت کیا کہ: ”تم مفلس کس کو سمجھتے ہو؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا کہ مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور دینار نہ ہوں،اور مال واسبا ب نہ ہوں،تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن آئے اوراس نے نمازیں بھی پڑھی ہوں، اور روزے بھی رکھے ہوں، اور زکات بھی دیتا رہا ہو، مگر اس کے ساتھ اس نے کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی، کسی کا ناحق مال کھایا تھا، ناحق خون بہایا تھا، کسی کو مارا تھا، اب قیامت میں ایک اس کی یہ نیکی لے گیا اور دوسرا دوسری نیکی لے گیا،یہاں تک کہ اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی،لیکن پھر بھی حق دار باقی ہوں گے، تو پھر باقی حق داروں کے گناہ اس پر لاد دیے جائیں گے، یہاں تک کہ وہ گناہوں میں ڈوب کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا، یہ ہے حقیقی مفلس۔“
تاہم اگر سسرال والوں نے زیورات دیتے وقت کسی بات کی صراحت نہیں کی تھی، تو اس صورت میں مذکورہ زیورات کی ملکیت کے بارے میں سسرال والوں کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا، یعنی طلاق یا خلع کی صورت میں اگر لڑکے کے خاندان میں زیورات واپس لینے کا رواج ہو، تو زیورات پر سسرال والوں کی ملکیت ہوگی، اس صورت میں مذکورہ خاتون کو زیورات کے مطالبہ کا حق نہیں ہوگا، اور اگر ایسے موقع پر زیورات دولہن کے پاس چھوڑنے کا رواج ہو، تو بیوی کی ملکیت شمار ہوں گے، اور اگر سسرال کا کوئی عرف نہ ہو، تو عرف عام کا اعتبار کرتے ہوئے مذکورہ زیورات بیوی کی شمار ہوں گے، اس صورت میں زیورات واپس نہ کرنے کا اختیار سسرال والوں کو شرعا نہیں ہوگا۔
صحیح مسلم میں ہے:ْ
"عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: « أتدرون ما المفلس؟ قالوا: المفلس فينا من لا درهم له، ولا متاع فقال: إن المفلس من أمتي يأتي يوم القيامة بصلاة وصيام وزكاة، ويأتي قد شتم هذا، وقذف هذا، وأكل مال هذا، وسفك دم هذا، وضرب هذا فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنيت حسناته قبل أن يقضى ما عليه أخذ من خطاياهم فطرحت عليه، ثم طرح في النار .»"
(باب تحریم الظلم،ج8،ص18،ط:دار الطباعۃ العامرۃ)
مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:
"(المادة 97) : لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي."
(المقدمۃ،ص27،ط:نور محمد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها، منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية."
(الفصل السادس عشر في جهاز البنت، ج1،ص327، ط: رشیدیه)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610101167
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن