بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر سے طلاق کا اختیار لینا


سوال

میری  شادی  ہونے  والی ہے  اور  میں اس شرط پر  شادی کرنا چاہتی ہوں کہ حق  طلاق میرے  پاس  ہو،  شوہر  کے  پاس  نہ رہے،  وجہ  یہ  ہے کہ وہ شخص گرم مزاج اور غصے کا سخت تیز ہے،  اکثر اوقات ایسی باتیں کہہ جاتا ہے جو کہنا نہیں چاہتا اور کہنے کے بعد اسے احساس ہوتا ہے،  معافی بھی مانگ لیتا ہے۔ اس صورت میں  مسئلہ یہ ہے کہ میں یہ باتیں اپنے ولی سے نہیں بتا سکتی؛  اس لیے نکاح کے وقت کہلوانا مشکل ہے۔ مگر  لڑکے کو خود  کی اس خامی کا مکمل احساس ہے،  اور وہ بھی مجھ سے اتفاق کرتا ہے۔ شریعت کی روشنی میں  بتائیے کیا صورت ہو سکتی  ہے  اس حق کو لینے کے  لیے؟

جواب

واضح   رہے  کہ شریعت  نے طلاق کا اختیار شوہر کو دیا ہے اور  اگر شوہر  طلاق کا اختیار  بیوی کو دے دے  تب بھی شوہر کے پاس طلاق کا اختیار موجود رہتا ہے، ، یعنی وہ جب چاہے بیوی کو طلاق دے سکتا ہے،  (گو جس شرط کے ساتھ بیوی کو طلاق واقع کرنے کا حق دیا گیا ہو،بیوی کو بھی اس صورت میں اپنے اوپر طلاق واقع کرنے کا حق حاصل ہوجاتاہے) ؛ لہذا  صورتِ  مسئولہ  میں آپ کا  شوہر  سے طلاق کا  اختیار   لینا اس مسئلے کا حل نہیں ہے،  بلکہ  شوہر  کو  چاہیے کہ اپنے غصے کو  قابو  میں  رکھے۔

"1331 - حَدَّثَنَا سَعِيدٌ قَالَ: نا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: «يُطَلِّقُ الْحُرُّ الْأَمَةَ ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ، وَتَعْتَدُّ حَيْضَتَيْنِ، وَيُطَلِّقُ الْمَمْلُوكُ الْحُرَّةُ تَطْلِيقَتَيْنِ، وَتَعْتَدُّ ثَلَاثَ حِيَضٍ، فَالثَّلَاثُ بِالرِّجَالِ، وَالْعِدَّةُ بِالنِّسَاءِ»."

(ص356 - سنن سعيد بن منصور - باب الطلاق بالرجال والعدة بالنساء)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200071

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں