بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کے بعد شوہر رخصتی نہ کرے تو نکاح ختم کرنے کا طریقہ


سوال

میری بہن کا نکاح دو گواہوں کی موجودگی میں ہوا تھا، جس شخص سےنکاح ہوا تھا وہ اس وقت پاکستان میں موجود نہیں تھا، اور اس کی طرف سے بھی دو گواہ موجود تھے اور لڑکے کی طرف سے وکیل کے طور پر اس کا بھائی موجود تھا ،مگر دولہا جو اس وقت سے اب تک سعودیہ میں مقیم ہے اور اس کے بعد اب تک ایک دفعہ بھی پاکستان نہیں آیا اور میری بہن سے بھی نکاح کے بعد آج تک اس نے ملاقات نہیں کی اور اس بات کو پانچ سال کا عرصہ گزر چکا ہے ،ابھی بھی ہم لوگ اس کے گھر والوں سے اس کے آنے کی بات کرتے ہیں تو اس کے گھر والوں کو بھی اس کے آنے کا کوئی ارادہ معلوم نہیں ، کیوں کہ  وہ وہاں پر غیر قانونی طور پر مقیم ہے،  اب ہمارے گھر والے چاہتے ہیں کہ یہ نکاح ختم کر دیا جائے ،لیکن اس شخص کا نہ تو کوئی پتہ ہے،  جس پر ہم اس کو خلع کا نوٹس بھیجیں اور اس کا دیا ہوا جو وہ موبائل نمبر ہے اس پر وہ ہماری کال نہیں اٹھا رہا،اس صورتِ حال میں ہماری بہن کے اوپر کیا شرعی حکم آتا ہے ؟کیا ہم اس کو ختم کر دیں یا اب بھی باقی ہے؟براہِ کرم مسئلہ بتا دیں کہ شریعت میں کیا گنجائش ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اگر واقعۃ مذکورہ شخص نے اپنے بھائی کو نکاح کرنے کے لیے وکیل بنایا تھا اور گواہوں کے سامنے ایجاب اور قبول ہوا ہے تو دونوں کا نکاح درست ہے۔نیز تاحال چوں کہ شوہر کی جانب سے نکاح کو ختم نہیں کیا گیا تو دونوں کا نکاح اب تک قائم ہے،اگر لڑکی والے نکاح کو ختم کروانا چاہتے ہیں ،تو لڑکے والے کے گھرانے کے ذریعے شوہر  سے رابطہ کرکے طلاق یا خلع لے سکتے ہیں، واضح رہے کہ خلع کے لیے بھی شوہر کی رضامندی ضروری ہے۔

نیزاگر بیوی شوہر کی کسی قسم کی نافرمانی  کے بغیر اپنے میکہ میں ہو تو شوہر کے ذمہ ہے کہ اس عرصہ میں بیوی کو نفقہ بھی دے ، اگر شوہر  بیوی کی کسی قسم کی کوتا ہی کے باوجود بھی بیوی کو نفقہ نہ دے تو  بیوی کو حق ہے کہ عدالت میں رجوع کرکے اپنا نکاح اور شوہر کا نفقہ نہ دینا ثابت کرے ،  اور متعلقہ جج  شرعی شہادت وغیرہ کے ذریعہ  معاملہ کی  پوری تحقیق کرے، اگر عورت کا دعویٰ  صحیح ثابت ہوجائے کہ اس کا شوہر  باوجود  وسعت کے  نہ تو اپنی منکوحہ کو   رخصت کراتا ہے، اور نہ    خرچہ  دیتا  ہے، تو اس کے  شوہر سے کہا جائے  کہ  عورت کے حقوق ادا کرو  یا  طلاق دو ،  ورنہ ہم تفریق کردیں گے،  اس کے بعد بھی اگر  وہ کسی صورت پر عمل نہ کرے تو  قاضی یا شرعاً جو اس کے قائم مقام ہو عورت پر طلاق واقع کردے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة ولايستحق العوض بدون القبول."

 (كتاب الطلاق، باب الخلع 3/441، ط: سعيد) 

"البحرالرائق" میں ہے:

"(قوله: تجب النفقة للزوجة على زوجها والكسوة بقدر حالهما) أي الطعام والشراب بقرينة عطف الكسوة والسكنى عليها، والأصل في ذلك قوله تعالى: ﴿ لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖ ﴾ [الطلاق: 7] وقوله تعالى: ﴿ وَعَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ﴾ [البقرة: 332] وقوله عليه الصلاة والسلام في حجة الوداع: «ولهن عليكم رزقهن وكسوتهن بالمعروف»، وعليه إجماع الأمة؛ لأن النفقة جزاء الاحتباس، فكل من كان محبوساً بحق مقصود لغيره كانت نفقته عليه."

(4/188 ۔ دارالمعرفہ)

"المحیط البرہانی" میں ہے:

"و المعنى في ذلك أن النفقة إنما تجب عوضاً عن الاحتباس في بيت الزوج، فإذا كان الفوات لمعنى من جهة الزوج أمكن أن يجعل ذلك الاحتباس باقيًا تقديرًا، أما إذا كان الفوات بمعنى من جهة الزوجة لا يمكن أن يجعل ذلك الاحتباس باقياً تقديرًا، وبدونه لايمكن إيجاب النفقة."

(كتاب النفقات، 4 /170 ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144303101054

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں