بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے سر پر گن رکھ کر طلاق دلوانے کا حکم، بیوی کا زبردستی خلع یا طلاق پر دستخط کروانا، لا حول ولا قوۃ الا باللہ کافی ہے؟


سوال

(1)کیاشوہر کے سر پر گن رکھ کر بیوی کو طلاق دلوائی جاسکتی ہے اور اس طرح سے طلاق واقع ہو جاتی ہے؟

(2) اگر بیوی خود زبردستی اپنے شوہر سے  طلاق یا خلع کے کاغذات پر دستخط کر والے تو کیا طلاق واقع ہو جائے گی یا نہیں؟

(3)کیا صرف لاحول ولا قوۃ الا باللہ کافی ہےاور اس طرح استغفراللہ ربی کی تسبیح پڑھنا درست ہے یا نہیں؟

جواب

1) کسی مسلمان کو ناحق  ڈرانا دھمکانا شرعاً حرام ہے، سنن ابی داؤد وغیرہ  میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کو ڈرائے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں شوہر کے سر پر پستول رکھ کر اس سے طلاق دلوانا گناہ کا کام ہے البتہ  ایسی حالت میں اگر  شوہر  نے زبان سے طلاق کے الفاظ ادا کر دیے تو اس کی بیوی پر طلاق واقع ہو جائے گی، لیکن اگر شوہر نے اس حالت میں طلاق کا جھوٹا اقرار کر لیا یعنی مثلاً یہ کہا کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے چکا ہوں تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔

اسی طرح اگر اس حالت میں شوہر نے  زبانی کچھ نہیں کہا، صرف طلاق کے الفاظ لکھ دیے یا طلاق نامہ پر دستخط کر دیے تب بھی طلاق واقع نہ ہوگی۔

2) اگر زبردستی سے مراد یہ ہے کہ شوہر کو مارنے یا قید کرنے کی دھمکی دی اور بیوی اس پر قدرت بھی رکھتی تھی اور خود شوہر کو بھی اس بات کا غالب گمان ہو گیا کہ اگر اس نے دستخط نہ کیے تو بیوی  اسے مارے گی یا قید کروادے گی تو ایسی صورت میں طلاق یا خلع کے کاغذات پر صرف دستخط کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوگی اور اگر اس درجہ کی زبردستی نہیں ہے تو پھر دستخط کرنے سےبھی طلاق واقع ہو جائے گی۔

کفایت المفتی میں ہے:

"ناجائز دباؤ سے مراد اگر یہ ہے کہ اس کو مارنے یا بند رکھنے کی دھمکی دی تھی اور دھمکی دینے والے اس پر قادر بھی تھے تو اس کے دستخط کردینے سے طلاق نہیں ہوئی بشرطیکہ اس کے ذہن میں یہ بات آگئی ہو کہ اگر میں نے دستخط نہیں کیے تو یہ مجھے ضرور ماریں گے  یا بند رکھیں گے لیکن اگر یہ حالت نہ تھی اور پھر بھی اس نے دستخط کر دیے تو اگر یہ دستخط کرنے کا اقرار کرتا ہو کہ باوجود اس علم کےکہ اس میں طلاق لکھی ہوئی ہے پھر بھی میں نے دستخط کیے ہیں تو طلاق واقع ہو جائے گی"۔

(کتاب الطلاق، چھٹی فصل: کتابتِ طلاق، ج:6،ص:67، ط : دار الاشاعت)

3)"لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ"کے کلمات کو حدیث شریف میں جنت کا خزانہ کہا گیا ہے، یہ الفاظ بالکل کافی ہیں، اگر کوئی  "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ" پڑھتا ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں اور   "أَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ رَبِّيْ" کی تسبیح پڑھنا  بھی درست ہے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ‌أبي موسى الأشعري قال: «أخذ النبي صلى الله عليه وسلم في عقبة، أو قال في ثنية، قال: فلما علا عليها رجل نادى فرفع صوته: لا إله إلا الله والله أكبر، قال: ورسول الله صلى الله عليه وسلم على بغلته، قال: فإنكم لا تدعون أصم ولا غائبا، ثم قال: يا أبا موسى أو يا عبد الله، ألا أدلك على كلمة من كنز الجنة؟ قلت: بلى؟ قال: لا حول ولا قوة إلا بالله".

(‌‌‌‌كتاب الدعوات، باب قول لا حول ولا قوة إلا بالله، 8/ 87 ط: المطبعة الكبرى الأميرية)

سنن ابی  داود میں ہے:

"عن ‌عبد الرحمن ابن أبي ليلى قال: حدثنا ‌أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم أنهم كانوا يسيرون مع النبي صلى الله عليه وسلم، فنام رجل منهم فانطلق بعضهم إلى حبل معه فأخذه ففزع، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:لا يحل لمسلم أن يروع مسلما".

(‌‌كتاب الأدب، باب من يأخذ الشيء من مزاح، 4/ 458 ، رقم: 5004، ط : المطبعة الأنصارية)

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"ولو أكره بوعيد تلف على أن يطلق امرأته ثلاثا ففعل ولم يدخل بها بانت منه".

(كتاب الإكراه، باب الإكراه على العتق والطلاق والنكاح، 24/ 63، ط:دار المعرفة)

فتاوی  قاضی خان میں ہے:

"رجل أكره بالضرب والحبس على أن يكتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان ابن فلان فكتب امرأته فلانة بنت فلان ابن فلان طالق لا تطلق امرأته لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا".

(‌‌كتاب الطلاق، فصل في الطلاق بالكتابة، 1/416، ط: دار الكتب علمية)

البحر الرائق  میں ہے:

"قوله: (ولو مكرها) أي ولو كان الزوج مكرها على إنشاء الطلاق لفظا

وقيدنا بالإنشاء لأنه لو أكره على أن يقر بالطلاق فأقر لا يقع

وقيدنا بكونه على النطق لأنه لو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا كذا في الخانية، وفي البزازية أكره على طلاقها فكتب فلانة بنت فلان طالق لم يقع اهـ".

(كتاب الطلاق، 3/ 264 ط: دارالكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307101226

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں