بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر سے چھٹارا حاصل کرنے کے لیے بیوی کا (العیاذ باللہ) مرتد ہوجانا / مرتدہ کے نکاح کا حکم


سوال

زید ایک کرسی پر بیٹھا تھا، اس کی بیوی نے اچانک آکر اپنے شوہر کو سجدہ کیا، تو زید فوراً کرسی سے اُٹھ کر بھاگ گیا، پھر اُس کی بیوی نے کہا کہ "میں نے آپ کو سجدہ کیا، میں مرتد ہوگئی، اور میرا تمہارا رشتہ ختم!"

تو اب مجھے پوچھنا یہ ہے کہ میری بیوی کی اس بدعملی سے واقعةً طلاق ہوگی یا نہیں؟ اور اس کی بدعملی کی وجہ سے ہم دونوں کو کیا کرنا چاہیے؟ اور اس کے ساتھ میرا نکاح بھی باقی ہے یا نہیں؟  اور وہ دوسری شادی بھی میرے علاوہ  کسی سے کرنا چاہتی ہے، تو میں  کیا کروں؟ مہربانی کرکے  وضاحت کردیجیے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر ذکر کردہ تفصیلات درست ہیں، اور آپ کی بیوی نے آپ کو عبادت کی نیت سے سجدہ کیا ہے تو وہ  دائرۂ اسلام سے خارج ہوگئی ہے، تاہم آپ دونوں کا نکاح بدستور قائم ہے، عورت کے مرتد ہوجانے سے اُس کا نکاح ختم نہیں ہوجاتا، لہٰذا آپ کی بیوی مرتد ہونے کے باوجود آپ کے علاوہ کسی دوسرے مرد سے نکاح نہیں کرسکتی۔ اب اُسے چاہیے کہ وہ سچے دل سے توبہ کرکے تجدیدِ ایمان کرلے، اور آپ کو بھی چاہیے کہ آپ اسے سمجھا بجھا کر تجدیدِ ایمان اور توبہ کی ترغیب دیں،  جب بیوی تجدیدِ ایمان کرلے تو آپ کو اُس کے ساتھ تجدیدِ نکاح کرنا ہوگا، جب تک بیوی تجدیدِ ایمان کے ساتھ تجدیدِ نکاح نہ کرلے، اس وقت تک آپ کا اپنی بیوی سے جماع اور دواعی جماع (بوس وکنار وغیرہ) کرنا جائز نہیں  ہوگا۔

تجدیدِ ایمان کا طریقہ یہ  ہے کہ وہ عورت اللہ تعالیٰ سے اپنے اس قبیح فعل پر سچے دل سے آئندہ نہ کرنے کے عزم کے ساتھ‘ معافی مانگے کہ "اے اللہ! مجھ سے جو شرکیہ  فعل سرزد ہوگیا ہے، میں اس سے توبہ کرتی ہوں، اور آئندہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرتی ہوں"، اس کے بعد زبان سے کلمۂ شہادت:  "أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰه وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمََّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُه" پڑھے اور دل سے اس کی تصدیق بھی کرے۔  اسی طرح اللہ تعالیٰ کی کتابوں، فرشتوں، رسولوں، آخرت کے دن، اچھی بری تقدیر اور روزِ قیامت جیسے بنیادی عقائد پر ایمان کا اعتراف کرلے۔

اور تجدیدِ نکاح کا طریقہ یہ ہے کہ  میاں بیوی کی باہمی رضامندی سے دو مسلمان عاقل بالغ مردوں یا ایسے ہی ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں خطبۂ  نکاح پڑھنے کے بعد نئے مہر کے ساتھ ایجاب و قبول کرلیا جائے، مثلاً: بیوی کہے کہ  "میں نے  اتنے مہر کے بدلے اپنے آپ کو آپ کے نکاح میں دیا"  اور شوہر  کہے کہ "میں نے قبول کیا"   تو  اس سے نکاح ہوجائے گا۔

البتہ  نکاح کے وقت خطبہ پڑھنا  سنت اور مسجد میں  نکاح کرنامستحب ہے، لہٰذا اگر خطبہ کے بغیریامسجد کے علاوہ کسی اور جگہ بھی   مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ صرف ایجاب و قبول کر لیا جائے، تب بھی نکاح ہو جائے گا۔ اور تجدیدِ نکاح اعلانیہ کرنا ضروری نہیں ہے۔

نیز اگر آپ کی بیوی نے مرتد ہونے کے بعد کسی اور مرد سے شادی کرکے اُس کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم نہیں کیے، تو ایسی صورت میں  تجدیدِ ایمان اور آپ کے ساتھ تجدیدِ نکاح کرے، اور عورت پر کسی قسم کی عدت گزارنا لازم نہیں ہوگا، نیز تجدیدِ نکاح کے بعد آپ کے ذمہ نیا مہر بھی ادا کرنا لازم ہوگا، اور اگر سابقہ نکاح میں مہر ادا نہیں کیا، تو اُس کی ادائیگی بھی ذمہ میں واجب رہے گی۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وكذا) ما يفعلونه من (تقبيل الأرض بين يدي العلماء) والعظماء فحرام والفاعل والراضي به آثمان لأنه يشبه عبادة الوثن وهل يكفران: على وجه العبادة والتعظيم كفر وإن على وجه التحية لا وصار آثما مرتكبا للكبيرة."

(كتاب الحظر والإباحة، ‌‌باب الاستبراء وغيره، ٦/ ٣٨٣، ط: سعيد)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"رجل كفر بلسانه طائعاً، وقلبه مطمئن بالإيمان يكون كافراً، ولايكون عند الله مؤمناً، كذا في فتاوى قاضي خان."

 

(كتاب السير، الباب العاشر في البغاة، ٢/ ٢٨٣، ط: رشيديه)

حیلۂ ناجزہ میں ہے:

"لما في الدر المختار: (‌وارتداد ‌أحدهما) أي الزوجين (فسخ) فلا ينقص عددا (عاجل) بلا قضاء (فللموطوءة) ولو حكما (كل مهرها) لتأكده به (ولغيرها نصفه) لو مسمى أو المتعة (لو) (ارتد) وعليه نفقة العدة. وفي رد المحتار: (قوله بلا قضاء) أي بلا توقف على قضاء القاضي، وكذا بلا توقف على مضي عدة في المدخول بها كما في البحر. (شامي باب نكاح الكافر ص ٤٢٥ج٣)

اور عالمگیری کتاب النکاح باب عاشر صفحہ ۳۱۷ جلد ۱ (مصری) میں ہے:إذا ارتد أحد الزوجين عن الإسلام ‌وقعت ‌الفرقة ‌بغير ‌طلاق في الحال قبل الدخول وبعده.

بعض لوگوں نے صرف ان عبارات کو دیکھ کر یہ سمجھ لیا کہ اگر عورت مرتد ہوجائے تب بھی نکاح فسخ ہوجائے گا اور اسی بناء پر محض ناواقفیت سے تمام روایاتِ فقہیہ کے خلاف یہ تفریع کربیٹھے کہ اس نالائق کو تجدیدِ اسلام کے بعد دوسرے خاوند سے نکاح کرنے کی اجازت ہے، یہاں تک کہ بعض کم بخت عورتوں نے اس کو خاوند سے رہائی حاصل کرنے کا سہل علاج سمجھ لیا اور ارتداد کی بلاءِ عظیم میں مبتلا ہوکر اپنے عمر بھر کے اعمالِ صالحہ برباد کردیے، حالاں کہ شرعی طورپر بھی ان کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا؛ کیوں کہ اس صورت میں دوسرے شخص سے نکاح کی ہرگز اجازت نہیں، بلکہ یہ لازم ہے کہ تجدیدِ اسلام اور تجدید نکاح کرکے پہلے ہی خاوند کے ساتھ رہے، جس کی تفصیل ارتدادِ زوجہ میں عنقریب آرہی ہے۔

حکم ارتدادِ زورجہ

زوجہ کے ارتداد میں روایات مختلف ہیں اور کسی قدر تفصیل ہے جو بحوالہ کتب درج ہے ۔۔۔ حاصل یہ ہے کہ عورت اگر مرتد ہوجائے تو اس کے نکاح کے بارے میں حنفیہ کے تین قول ہوئے۔ ایک: یہ کہ نکاح فسخ ہوجاتا ہے، لیکن بعد تجدیدِ اسلام اس کو تجدیدِ نکاح پر مجبور کیا جائے گا، کسی دوسری جگہ نکاح کرنے کا اختیار نہ دیا جائے گا (وهو ظاهر الرواية)۔ دوسرا: یہ کہ نکاح فسخ ہی نہ ہوگا، بلکہ وہ بدستور زن وشوہر رہیں گے۔ تیسرا: یہ کہ عورت کو کنیز بناکر رکھا جائے گا۔

ان تینوں اقوال میں اگرچہ کچھ اختلاف ہے، لیکن اتنی بات پر تینوں متفق ہیں کہ عورت کو کسی طرح یہ حق نہ دیا جائے گا کہ وہ اپنے پہلے خاوند کے نکاح سے علیحدہ ہوکر دوسری جگہ نکاح کرلے، اس لیے یہ بات متفق علیہ ہوگئی کہ عورت کو دوسری جگہ نکاح کرنے کا ہرگز اختیار نہ ہوگا ۔۔۔ اس مجموعہ سے خلاصہ اس فتویٰ کا یہ حاصل ہوا کہ عورت بدستور سابق اسی خاوند کے قبضہ میں رہے گی، کسی دوسرے شخص سے ہرگز نکاح جائز نہیں۔ لیکن جب تک تجدیدِ اسلام کرکے تجدیدِ نکاح نہ کرے، اس وقت تک اس کے ساتھ جماع اور دواعی جماع کو جائز نہ کہا جائے گا۔"

(حکم الازدواج مع اختلاف دین الازواج، حکم ارتدادِ زوجہ، ص: ۱۱۱- ۱۲۰، ط: دارالاشاعت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(الإيمان ) وهو تصديق محمد صلى الله عليه وسلم في جميع ما جاء به عن الله تعالى مما علم مجيئه ضرورة وهل هو فقط أو هو مع الإقرار قولان وأكثر الحنفية على الثاني والمحققون على الأول."

(کتاب الجھاد، باب المرتد، ٤/ ٢٢١، ط: سعید)

وفيه أيضاً:

"ثم اعلم أنه يؤخذ من مسألة العيسوي أن من كان كفره بإنكار أمر ضروري كحرمة الخمر مثلًا أنه لا بد من تبرئه مما كان يعتقده لأنه كان يقر بالشهادتين معه فلا بد من تبرئه منه كما صرح به الشافعية وهو ظاهر."

(کتاب الجهاد، باب المرتد، ٤/ ٢٢٨، ط :سعید)

حیلۂ ناجزہ میں ہے:

"صورتِ مذکورہ میں تجدیدِ نکاح کے لیے انقضائے عدت ضروری نہیں (کما ھو ظاھر)، لیکن تھوڑا سا مہرِ جدید ضروری ہے، جو دس درہم سے کم نہ ہو ۔۔۔ اور مہرِ سابق کا بدستور فی الذمہ رہنا ظاہر ہی ہے۔"

(حکم الازدواج مع اختلاف دین الازواج، حکم ارتدادِ زوجہ، ص: ۱۲۰، ط: دارالاشاعت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144507101865

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں