بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے نان نفقہ نہ دینے اور ظلم وستم کرنے کی بنیاد پر عدالت سے نکاح فسخ کرانے كا حكم


سوال

 میاں بیوی کی شادی مورخہ 2016۔04۔17کوہوئی، تقریبا ایک سال تک معاملات درست رہے، میاں بیوی نےایک ساتھ زندگی بسرکی، شادی کےایک سال گزرنےکےبعدتنازع ہوا، اب چھ سال گزرنےکوہیں،  میاں بیوی کےدرمیان جدائی ہے ،چھ سال کےدرمیانی عرصہ میں عورت کی جانب سے کوششیں کی گئیں  کہ یاتوصلح کرو ،وگرنہ طلاق دو، لیکن شوہرنہ تو صلح کرتاہے اور نہ طلاق دیتاہے،  صاف انکارکرتاہے ،بلکہ کہتاہےکہ میں اسےذلیل کروں گا،نان ونفقہ نہیں دیتا،اولادبھی نہیں ہے،پنچائتی فیصلہ ماننےکوتیارنہیں ۔

جب پنچائتی فیصلہ نہیں ماناگیاتوعورت نے عدالت کی طرف رجوع کرلیامورخہ 2022۔05۔18کوتنسیخ کا دعوی کیاگیا ،عدالت کی جانب سےشوہرکوتین بارنوٹس بھیجاگیا،اخبارمیں دیاگیا،لیکن شوہرعدالت میں حاضر نہیں ہوا،توعدالت نے عورت کےحق میں یک طرفہ فیصلہ سنادیاہے۔

مفتیان کرام اس مسئلہ کےاندررہنمائی فرما دیں کہ شرعاطلاق واقع ہوگئی ہے یانہیں ہوئی۔ ہمارے  نمبر  پر میسج کردیں گے تو میں آپ کو عدالتی فیصلے کا PDF بھیج دوں گا جو کہ فتویٰ جاری کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ خلع میاں بیوی کی باہمی رضامندی سے انجام پانے والا  ایک مالی معاملہ ہے،میاں بیوی میں سے کوئی ایک راضی ہو اور دوسرا راضی نہ ہو تو ایسا خلع شرعًا معتبر نہیں،البتہ شریعت نے عورت کو مخصوص عوارض کی موجودگی میں اسلامی عدالت سے رجوع کرکے شکایات کو گواہوں سے ثابت کرکے  نکاح فسخ کرانے کا اختیار دیاہے۔

صورتِ  مسئولہ میں   بہ شرطِ  صحتِ  سوال اگر    مذکورہ عورت کا شوہر  واقعی متعنت ہے، یعنی بیوی سے نہ تو صلح کرتاہےاورنہ طلاق دیتاہے،  صاف انکارکرتاہے،  بلکہ کہتاہےکہ میں اسےذلیل کروں گا، اور نان ونفقہ نہیں دیتا   تو عورت کو چاہیے کہ  عدالت میں اپنا معاملہ پیش کرے،  عدالت سے  نان نفقہ  نہ دینے کی بنیاد پر فسخِ  نکاح کا مقدمہ  دائر کرے،جس کاطریقہ یہ ہے کہ  عورت  پہلے عدالت میں شرعی گواہوں  کے ذریعے اپنے نکاح کو ثابت کرے ،اس کے بعد شرعی گواہوں کے ذریعے شوہر کے نان نفقہ  نہ دینے کو ثابت کرے،اگر عورت عدالت میں گواہوں کے  ذریعے اپنے دعوی کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائے تو عدالت پہلے شوہر کو بلائے اور اسے حقوق کی ادائیگی کا حکم دے، اگر شوہر انکار کرے یا ادا نہ کرے یا عدالت میں حاضر ہی نہ ہو تو پھر عدالت اس نکاح کو فسخ کردے، جس کے بعد تین ماہواری عدت گزار کر عورت   کادوسری جگہ نکاح کرنا  جائز  ہوگا ، واضح  رہے کہ  عدالت کے بلانے کے باوجود شوہر اگر حاضر نہ ہو تو عدالت کو  شوہر کی غیر موجودگی میں بھی فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہوگا۔

بہر حال نان نفقہ نہ دینے کی بنیاد پر عدالت کے نکاح فسخ کردینے سے نکاح ختم ہوجاتا ہے، لہذا اگر نباہ کی صورت ممکن نظر نہیں آتی تو عورت نان نفقہ کی عدمِ ادائیگی کو بنیاد بنا کر عدالت سے فسخ نکاح کا مطالبہ کرے۔  

غرض کہ منسلکہ خلع نامہ شرعًا  درست نہیں ہے ،اس  سے نکاح ختم نہیں ہوا اگر ختم کرنا ہے تو فتوی میں جو صورت لکھی گئی ہے اس کو اختیار کریں ۔

قرآن مجید میں ہے:

"وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَٱبْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهٖ وَحَكَمًامِّنْ أَهْلِهَآ إِنْ يُّرِيْدَآ إِصْلَاحًا يُّوَفِّقِ ٱللّٰهُ بَيْنَهُمَآۗ إِنَّ ٱللّٰهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيْرًا (٣٥)(سورة النساء)".

ترجمہ:"اور اگر تم اوپر والوں کو ان دونوں میاں بیوی میں کشاکش کا اندیشہ ہو تو تم لوگ ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتاہومرد کے خاندان سے اور ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتاہو عورت کے خاندان سے بھیجو ،اگر ان دونوں آدمیوں کو اصلاح منظور ہوگی تو اللہ تعالیٰ ان میاں بی بی کے درمیان اتفاق پیدا فرمادیں گے،بے شک اللہ تعالیٰ بڑے علم اور بڑے خبر والے ہیں ۔   "

(بیان القرآن:٣٥٥/١،ط:رحمانیہ)

بدائع الصنائع للکاسانی میں ہے :

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول الخ."

 (کتاب الطلاق،فصل واماالذی یرجع الی المرأۃ،١٤٥/٣،ط:دار الکتب العلمیة)

المحیط البرہانی میں ہے:

"و المعنى في ذلك أن النفقة إنما تجب عوضاً عن الاحتباس في بيت الزوج، فإذا كان الفوات لمعنى من جهة الزوج أمكن أن يجعل ذلك الاحتباس باقيًا تقديرًا، أما إذا كان الفوات بمعنى من جهة الزوجة لا يمكن أن يجعل ذلك الاحتباس باقياً تقديرًا، وبدونه لايمكن إيجاب النفقة."

( كتاب النفقات، ١٧٠/٤،ط: دار الكتب العلمية)

حیلہ ناجزۃ میں ہے :

"وأما المتعنت الممتنع عن الإنفاق ففي مجموع الأمير مانصه:إن منعها نفقة الحال فلها نفقة القيام فإن لم يثبت عسره أنفق أو طلق وإلا طلق عليه.قال محشيه قوله:وإلا طلق أي طلق عليه الحاكم من غير تلوم إلي أن قال:وإن تطوع بالنفقة قريب أوأجنبي فقال ابن القاسم لها أن تفارق لأن الفراق قد وجب لها.وقال ابن عبدالرحمن لا مقال لها لأن سبب الفراق هو عدم النفقة قد انتهي وهو الذي تقضيه المدونة كما قال ابن المناصف."

(حیلہ ناجزہ فصل  فی حکم زوجۃ المتعنت٧٣،ط: دار الاشاعت )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100997

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں