بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 ذو القعدة 1445ھ 21 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر نامرد ہو تو بیوی کیا کرے؟


سوال

میری شادی  کو کم و بیش پانچ سال ہوچکے ہیں، اور شادی کی پہلی رات ہی مجھے اس بات کا علم ہوا کہ میرے شوہر میں مردانہ کمزوری ہے، جس کی وجہ سے وہ کچھ کر نہیں سکتا۔لہٰذا دوسرے ہی دن میں نے اپنی ماں اور ساس کو اس بات کا بتایا، لیکن گھر والوں شوہر کے علاج کا مشورہ دیا ، اب چار سال ہوگئے ہیں اور ہر طریقے کا علاج کروایا ہے، لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں آیا، اور اب میں یہ سب برداشت نہیں کرسکتی، کیوں کہ معاشرے اور خاندان کے لوگ یہ سمجھتے ہیں، کہ مجھ میں ہی مسئلہ ہے، جبکہ میری میڈیکل رپورٹس بالکل کلیئر ہیں، مسئلہ میرے شوہر میں ہے۔براہ مہربانی رہنمائی فرمائیں، کہ اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ 

جواب

صورت مسئولہ میں سائلہ کا  شوہر اگر واقعۃ نامرد ہے اور  باوجود علاج معالجہ کےازدواجی حقوق ادا کرنے سے بالکل قاصر ہے تو اس صورت میں سب سے بہتر صورت یہی ہے کہ شوہر سے طلاق لی جائے، اگر وہ طلاق دینے پر راضی نہ ہو تو اپنے مہر کے بدلہ میں اس سے خلع لی جائے، اگر وہ اس پر راضی نہ ہو تو پھر سائلہ کو  عدالت کے ذریعہ اپنا نکاح فسخ کرانے کا اختیار ہوتا ہے بشرطیکہ نکاح سے پہلے اسے اپنے شوہر کے نامرد ہونے کا علم نہ ہو، اور  نکاح کے بعد شوہر  کے بارے میں معلوم ہونے پر اس نے اس شوہر کے ساتھ رہنے پر رضامندی کا اظہار بھی نہ کیا ہو۔ ایسے شوہر  سے آزادی حاصل کرنے کا تفصیلی طریقہ یہ ہے:

نامرد شخص کی بیوی کوچاہیے کہ وہ کسی مسلمان جج کی عدالت میں دعوی دائر کرے کہ اس کا شوہر ہم بستری کے قابل نہیں ہے اوراب تک ایک مرتبہ بھی حقوقِ زوجیت ادا نہیں کرسکاہے،  لڑکی کے دعوے  کے بعد جج اس کے شوہر کوطلب کرکے تحقیق کرے گا، اگرثابت ہوجائے کہ اب تک ایک مرتبہ بھی حقوقِ زوجیت ادا نہیں کرسکا ہے تو جج مذکورہ لڑکی کے شوہرکو ایک سال کی مہلت دے گا  کہ مزید علاج وغیرہ کرکے بیوی کا حق ادا کرے،  ایک سال بعد بھی اگروہ ہم بستری پرقادر نہ ہو تو جج مذکورہ لڑکی سے ایک مرتبہ پھرپوچھے گا کہ وہ اسی شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے یاجدائی چاہتی ہے؟ اگرلڑکی جدائی کا مطالبہ کرے توجج دونوں کے درمیان تفریق کردے گا،  اس کے بعد لڑکی عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔ 

محیط برہانی میں ہے:

"9706 - حدثنا محمد بن النضر الأزدي، ثنا أبو غسان، ثنا قيس بن الربيع، أنا الركين بن الربيع بن عميلة، عن أبيه، عن عبد الله، قال: يؤجل العنين سنة، فإن وصل إليها وإلا فرق بينهما، ولها الصداق."

(المعجم الکبیر للطبراني، باب العين، 343/9، رقم: 9706، دار النشر: مكتبة ابن تيمية - القاهرة)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(هو) لغةً: من لايقدر على الجماع، فعيل بمعنى مفعول، جمعه عنن. وشرعًا: (من لايقدر على جماع فرج زوجته) يعني لمانع منه ككبر سن، أو سحر، إذ الرتقاء لا خيار لها للمانع منها خانية. (إذا وجدت) المرأة (زوجها مجبوبا) ، أو مقطوع الذكر فقط أو صغيره جدا كالزر، ولو قصيرا لا يمكنه إدخاله داخل الفرج فليس لها الفرقة بحر، وفيه نظر.وفيه: المجبوب كالعنين إلا في مسألتين؛ التأجيل، ومجيء الولد (فرق) الحاكم بطلبها لو حرة بالغة غير رتقاء وقرناء وغير عالمة بحاله قبل النكاح وغير راضية به بعده (بينهما في الحال) ولو المجبوب صغيرا لعدم فائدة التأجيل.

(قوله: وغير عالمة بحاله إلخ) أما لو كانت عالمة فلا خيار لها على المذهب كما يأتي، وكذا لو رضيت به بعد النكاح."

 (كتاب الطلاق، باب العنين، جلد:3، صفحہ:496-498، طبع: سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و لو وجدته عنينًا) هو من لا يصل إلى النساء لمرض أو كبر، أو سحر ... (فإن وطئ) مرة فبها (و إلا بانت بالتفريق) من القاضي إن أبى طلاقها...

(قوله: و إلا بانت بالتفريق) لأنها فرقة قبل الدخول حقيقة، فكانت بائنة و لها كمال المهر و عليها العدة لوجود الخلوة الصحيحة، بحر."

 (كتاب الطلاق، باب العنين، جلد:3، صفحہ:496-498، طبع: سعید)

المحيط البرهاني ميں هے:

"وإذا وجدت المرأة زوجها عنینًا فلها الخیار، إن شاء ت أقامت معه کذٰلک، وإن شاء ت خاصمته عند القاضي وطلبت الفرقة."

(کتاب النکاح، الفصل الثالث والعشرون، العنین، جلد:4، صفحه: 238، طبع:  المجلس العلمي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101852

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں