بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے ساتھ دکان خریدنے میں مدد کرنا اور تقسیمِ میراث


سوال

میرے شوہرنے ایک دکان خریدی تھی، اس  کی پیمنٹ کرنے میں  میں نے اپنے شوہر کے ساتھ    اہم کردار ادا کیا تھا، یعنی میں نے بھی دکان خریدنے  میں پیسے خرچ کیے تھے، لیکن باقاعدہ کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا کہ میں یہ پیسے واپس لوں گی وغیرہ ، میرا چھوٹا بیٹا جوکہ دکان سنبھالتا تھا اور میرے شوہر شام کو دکان جاتے تھے اور دکان کا مال میرے شوہر لاتے تھے اور میرا بیٹا پورے دن کی سیل اپنے باپ کو دیتا تھا، پھر وہ اس سے مال خریدتے تھے ، اس دکان کے منافع سےبھی میں بیسیاں بھرتی تھی، جیسے جیسے بیسیاں کھلتی گئیں اور ہم دکان کی پیمنٹ کرتے گئے، جوکہ تین سال میں پوری ہوئی ، پھر میرے شوہر کا انتقال ہوگیا اور میرے بیٹوں نے دکان میرے نام ٹرانسفر کروادی ، کاغذات میرے دو بیٹوں نے اپنے پاس رکھ لیے،  میرے شوہر کے انتقال کو تیرہ سال ہوگئے، اب تک نہ   مجھے ان دونوں بیٹوں  نے کاغذات دکھائے ہیں ،اور نہ دیے ہیں اور ان دونوں بیٹوں نے میرے چھوٹے بیٹے سے دکان خالی کروالی، جس نے شروع سے باپ کی زندگی سے دکان سنبھالی ہوئی تھی ،دکان خالی کرواکر  اپنے نام ایگریمنٹ کرکے دکان کرایہ پر دے دی اور شروع سے ہی کرایہ کے پیسوں میں سے پیسے لیتے رہے ہیں۔

اب دریافت یہ کرنا ہےکہ یہ  دکان وراثت کہلائے گی یانہیں؟میرے تین بیٹے مجھے سے جھگڑا کرتے ہیں کہ یہ وراثت ہے،   جب کہ میرے زیرِ کفالت ایک بیٹی ہے جس کو اس کے شوہر نے میرے گھر چھوڑ دی ہے اور خود دوسری شادی کرلی ہے۔ نیز میرا ایک جوان بیٹا جوکہ والد کے ایک سال پندرہ دن پہلے  حادثے میں وفات ہوگیا تھا، وہ اپنے پیچھے ایک بیوہ اور دو بچے چھوڑ کرگیاہے، جس کی کفالت بھی میرے ذمہ  ہے اور میری بھی طبعیت ٹھیک نہیں رہتی ۔ مذکورہ دکان کی مالیت ستر لاکھ روپے(7000000) ہے۔

اگر یہ شریعت کی رو سے وراثت بنتی ہے تو میرے پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں، جن میں سے ایک بیٹےاور مرحوم کے والدین  کا مرحوم کی زندگی میں  انتقال ہوگیا تھا ۔ اس دکان کے خریدنے کے پیسوں کے انتظام میں اہم کردار میرا ہے،  رات دن محنت کرکے پیمنٹ کی ہے ، اب اگر وراثت ہے تو بھی بتائیں اور اگر نہیں تو بھی بتائیں کہ کس کا ہے؟ تاکہ مجھ سے ناانصافی نہ ہوجائے مجھے اللہ کا خوف ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں دکان خریداری میں سائلہ نے رقم دیتے  وقت   کوئی معاہدہ نہیں  کیا تھا ، کہ میں یہ رقم قرض کے طور پر دے رہی ہوں، یا شرکت کےلیے دے رہی ہوں، اس لیے یہ رقم  سائلہ کی طرف سے اپنے شوہر پر تبرع واحسان ہوگا، جس کا بدلہ سائلہ کو آخرت میں ملے گا، اور مذکورہ دکان مرحوم کا ترکہ ہوگا،  جو مرحوم کے تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق  اس طرح تقسیم ہوگا ،کہ سب سے پہلے  مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر ان کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اس کو ادا کرنے کے بعد ،اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو توباقی ترکہ کے ایک تہائی  حصہ  میں سے اسے نافذ  کرنے کے بعد  جو ترکہ  باقی رہ جائے، اس  کےکل96 حصے  کر کے مرحوم  کی بیوہ (سائلہ)کو12حصے،مرحوم کے ہرایک بیٹے کو14 حصے،اور ہرایک بیٹی کو7 حصہ ملیں گے۔

                                    (صورتِ تقسیم یہ ہے)

میت:96/8 سائلہ کا شوہر مرحوم         

بیوہ بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
1۔۔۔۔۔۔۔۔۔7۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
12141414147777

            یعنی ستر لاکھ روپے میں سےمرحوم کی بیوہ کو875000روپے،مرحوم   کے ہرایک بیٹے کو1020833.33روپے اور ہر ایک بیٹی کو510416.666روپے ملیں گے۔

ملحوظ رہے کہ مذکورہ تقسیم اس اعتبار سے ہے کہ سائلہ کے جس بیٹے کا انتقال والدمرحوم کی زندگی میں ہوا تھا، اسے بھی سائلہ نے پانچ بیٹوں میں شمار کیا ہو، اور سائلہ کے شوہر مرحوم کی وفات کے وقت صرف چار بیٹے حیات ہوں،  جس بیٹے کا والد کی زندگی میں انتقال ہوگیا تھا تو اگرسائلہ کے شوہر مرحوم کے تمام ورثاء عاقل بالغ ہوں اور وہ اپنی طرف سے ان کو بھی کچھ حصہ دے دیں تو باعث اجر وثواب ہوگا۔

البحر الرائق میں ہے:

و أما الحقوق المتعلقة بالتركة فأربعة الكفن و الدفن و الوصية، و الدين، و الميراث.                                                                                                                                  

   (کتاب الفرائض،باب اصناف الوارثین ، ج8، ص556 ط:دارالکتب)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100583

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں