بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے پاس 8 لاکھ روپے ہیں اور بیوی کے پاس سونے کی دو چینیں ہیں تو زکاۃ واجب ہوگی یا نہیں


سوال

میری بیوی کے پاس دو سونے کی چین ہیں ،ایک روزانہ استعمال کرتی ہے اور ایک کبھی کبھار،کل 150000 روپے کی مالیت ہے ۔

میرے پاس 8 لاکھ ہیں ،میری  پہلی کمیٹی کھلی ہے ،مجھ پر زکاۃ فرض ہے ؟

 

جواب

واضح رہے کہ شوہر بیوی کی ملکیت جدا جدا ہوتی ہے اور زکاۃ کا تعلق ہر شخص کی اپنی ملکیت کے ساتھ ہوتا ہے ،چنانچہ اگر شوہر کے پاس نصاب ِ زکاۃ کے بقدر مال ہو تو شوہر پر اپنے مال کی زکاۃ ادا کرنا واجب ہوگی ،بیوی کے پاس نصاب ِ زکاۃ کے بقدر مال ہوتو بیوی پر اپنے مال کی زکاۃ ادا کرنا واجب ہے ،شوہر اور بیوی کی ملکیتوں کو ایک ساتھ جمع نہیں کیا جائے گا۔

لہذا صورت مسئولہ میں سائل کی بیوی کے پاس سونے کی دو چینیں ہیں ،اگر یہ سائل کی بیوی کی ملکیت ہیں تو  اس پر زکاۃ کے واجب ہونے کا تعلق بیوی کی اپنی ملکیت سے ہوگا ،شوہر کی ملکیت کے ساتھ اس جمع نہیں کیا جائے گا،چنانچہ اگر سائل کی بیوی کے پاس مذکورہ سونے کی دو چینوں کے علاوہ چاندی یا ضرورت سے زائد نقد رقم یا مال ِتجارت میں سے بھی کچھ موجود ہو کہ  ان سب کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے بقدر ہو تو سائل کی بیوی پر ان اموال ِ زکاۃ کی ڈھائی فیصد زکاۃ ادا کرنا واجب ہوگی،لیکن اگر سائل کی بیوی کی ملکیت میں مذکورہ سونے کی چین کے علاوہ  اموال زکاۃ(چاندی،نقد رقم اور مال تجارت)  میں سے کچھ نہیں ہے تو اس پر زکاۃ واجب نہیں ہوگی ،  نیز ملحوظ  رہے کہ سونا کے زیورات خواہ استعمال میں ہوں یا نہ ہوں بحسب  شرائط ان پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔ 

سائل کی  ملکیت میں جو 8 لاکھ روپے ہیں ،اس کی زکاۃ سائل پر واجب ہوگی ،البتہ اس میں یہ تفصیل  ہے کہ کمیٹی  کی جتنی قسطیں باقی ہیں وہ سائل کے ذمہ قرض ہیں ،چنانچہ   واجب الاداء قسطوں کی رقم منہا کرنے کے بعد جو نقدر قم سائل کے پاس بچے گی اگر  وہ نصاب یعنی  ساڑھے باون تولہ چاندی  کی مالیت کے بقدر ہو تو سائل پر زکاۃ واجب ہوگی ،اگر نصاب سے کم رقم ہوگی تو زکاۃ واجب نہیں ہوگی۔اسی طرح دیگر اموال زکاۃ(سونا ،چاندی ،مال ِ تجارت) میں سے سائل کی ملکیت میں  کچھ موجود ہو   تو ان سب کو نقد رقم کے ساتھ ملاکر مجموعی مالیت کا اعتبار کیا جائےگا،مجموعی مالیت زکاۃ کے نصاب کے بقدر ہو تو اس پر زکاۃ واجب ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام) بالرفع صفة ملك، خرج مال المكاتب....(فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد)."

(كتاب الزكاة ،سبب افتراضها،2 /259، 262، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) يضم (الذهب إلى الفضة) وعكسه بجامع الثمنية (قيمة) وقالا بالإجزاء فلو له مائة درهم وعشرة دنانير قيمتها مائة وأربعون تجب ستة عنده وخمسة عندهما فافهم.

وفي الرد: قوله ( ويضم الخ ) إلى عند الاجتماع أما عند انفراد أحدهما فلا تعتبر القيمة إجماعا بدائع لأن المعتبر وزنه أداء ووجوبا."

( کتاب الزكاة، باب زكاة المال 2/302 ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609100919

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں