بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے نانا کی خدمت کرنے کا حکم


سوال

میرے نانا جان اپنے بیٹے کے ساتھ رہتے ہیں، میرے ماموں کے تین بیٹے ہیں اور تینوں شادی شدہ ہیں اور سب ایک ہی گھر میں الگ الگ فلور پر رہتے ہیں، میرے ماموں  کی تینوں بہو میرے نانا کی خدمت کرتی ہیں، میرے نانا کو اکثر کھانا سمجھ نہیں آتا تو وہ کچھ بولتے نہیں ہیں، حالاں کہ بنانے والی صحیح کھانا بنا تی ہیں تو اب میرے نانا ڈانٹنے کے بجاۓ بد گمان ہو تے ہیں کہ انہیں مجھے گھر سے نکالنا ہے تو سوال یہ کرنا ہے کہ میرے نانا کی خدمت کا اپنے بیٹے کی بہو پر حق ہے؟ کیوں کہ وہ یہ سوچتی ہیں کہ ہم کہیں گناہ گار تو نہیں ہو رہے۔

جواب

والدین کی اطاعت، فرماں برداری اور ان کی خدمت اولاد کی ذمہ داری ہے، خصوصاً جب وہ بوڑھے اور ضعیف ہوجائیں تو اولاد کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے،اس لیے آپ کے ماموں کو چاہیے کہ وہ آپ کے نانا کی خوب خدمت کریں ، نیز پوتے نواسے بھی حسبِ استطاعت اپنے دادا/ نانا کی خدمت کرلیا کریں، یہ اجر وثواب کا باعث ہے۔

پھر اگر آپ کے نانا کے کھانے پینے کا انتظام ان کے پوتوں کی بیویاں کرتی ہیں تو یہ اجر کا کام ہے، اس خدمت پر وہ بارگاہِ الٰہی میں ثواب کی مستحق ٹھہریں گی، اگر نانا کسی وجہ سے غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہوں تو مناسب انداز میں ان کی غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، بہرحال! اس خدمت کی وجہ سے وہ گناہ گار بالکل نہ ہوں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوجوان کسی بوڑھے کی اس کی عمر کی وجہ سے تعظیم و تکریم کرتا ہے،تو اس کے بدلے اللہ تعالیٰایک شخص کو مقرر کر دیتا ہے جو اس کے بڑھاپے میں اس کی عزّت کرے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما أكرم شاب شيخا لسنه إلا قيض الله له من يكرمه عند سنه."

(سنن الترمذی، ابواب البر والصلۃ، باب ما جاء فی اجلال الکبیر، جلد:4، صفحہ: 372، طبع: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101221

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں