ہمارے کسی عزیز کی بیٹی کا نکاح کسی غیر مسلم لڑکے سے ہوا، لڑکی والوں نے شرط رکھی کہ اگر تم مسلمان ہو گئے تو نکاح ہوگا ورنہ نہیں، بہرحال وہ لڑکا مسلمان ہو گیا، اس طرح ان دونوں کا نکاح ہوگیا، کچھ سالوں بعد میاں بیوی کے درمیان جھگڑے شروع ہو گئے اور پھر طلاق تک نوبت پہنچ گئی۔ لڑکا بھی مرتد ہو گیا، لیکن ابھی اس نے طلاق نہیں دی۔ میرا سوال یہ تھا کہ لڑکے کے مرتد ہونے سے ان کا نکاح فاسد ہو گیا یا پھر طلاق کے بعد ہی نکاح ختم ہوگا؟
لڑکے کے مرتد ہونے سے نکاح فسخ (ختم ) ہوگیا ہے، لڑکی پر عدت لازم ہے، عدت کے بعد وہ دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔
وفي الدر المختار:
"(وارتداد أحدهما) أي الزوجين (فسخ) فلاينقص عددًا (عاجل) ... بلا قضاء ... وعليه نفقة العدة."
وفي حاشية ابن عابدين :
"(قوله: بلاقضاء) أي بلا توقف على قضاء القاضي ...(قوله: و عليه نفقة العدة) أي لو مدخولًا بها إذ غيرها لا عدة عليها. وأفاد وجوب العدة سواء ارتد أو ارتدت بالحيض أو بالأشهر لو صغيرة أو آيسة أو بوضع الحمل، كما في البحر."
(رد المحتار3/ 193ط:سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144110201760
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن