بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے ہوش میں نہ ہونے کی صورت میں خلع کا فیصلہ نہیں ہوسکتا نیز لڑکی کو بری کے طور پر ملنے والے زیورات کا حکم


سوال

مجھے اپنی بیٹی کے خلع کےسلسلے میں فتویٰ نکلوانا ہے،ہم نے پہلے بھی نکلوایا ہے،لیکن بات پوری طرح واضح نہیں ہوئی ہے۔

میری بیٹی کی شادی پانچ سال قبل ہوئی تھی،میرا داماد لندن میں رہتاہے،میرے داماد کی عمر 41سال ہےاور میری بیٹی کی عمر26 سال ہے،میری بیٹی پاکستان میں رہتی ہے،میرے داماد کی پہلے ہی ایک بیوی اور دو بچے ہیں،میری بیٹی سے جھوٹ بول کرشادی کی ہے،میری بیٹی کی کوئی اولاد نہیں ہے،میری بیٹی کو اپنےماں باپ کی خدمت کے لیے پاکستان میں چھوڑا ہوا تھااورخود لندن میں اپنی فیملی کے ساتھ رہتا تھا،میری بیٹی سے جھوٹ بولتا تھاکہ میں اپنی پہلی بیوی کے ساتھ خوش نہیں ہوں اور اپنی پہلی بیوی سے جھوٹ بولتا تھا کہ میری بیٹی کے ساتھ خوش نہیں ہے،اپنی پہلی بیوی کے ساتھ رہتا تھا،اس کے سارے حق ادا کررہا تھا،مگر میری بیٹی کا کوئی حق ادا نہیں کیانہ میری بیٹی سے کوئی اولاد ہے۔

اب2مہینے قبل میرے داماد کے ساتھ حادثہ پیش آگیاہے،وہ لندن میں کومہ کی حالت میں بسترسے لگ گیا ہے،ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ وہ کب ہوش میں آئے گا،انہیں بھی پتہ نہیں،ڈاکٹر نے جواب دے دیا ہے،وہ ہوش میں آنے کا کوئی وقت نہیں بتا رہے ہیں۔

میری بیٹی کی شادی کو 5سال ہوگئے ہیں،میرا داماد 5سالوں میں میری بیٹی کے ساتھ51دن رہا ہے اور3سالوں سے وہ میری بیٹی کے پاس پاکستان نہیں آیا،3سالوں سے پاکستان آنے کا جھوٹ بول رہا ہے،لیکن ابھی تک نہیں آیا،تین سالو ں سےمیری بیٹی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہا ہے،تین سالوں سے میری بیٹی ذہنی مریضہ بنتی جارہی ہے۔

نکاح اور رخصت کر کے اپنے گھر لے گیا،نہ ہی میرے داماد نے ولیمہ کیا اور نہ ہی میری بیٹی کا N.I.Cاور نکاح رجسٹرد کروایا اور جھوٹ بولتارہاکہ لندن بلا رہا ہوں ،کوئی پیپر نہیں بنوائے،اس کےحادثہ کے بعد ہمیں اس کا سارا جھوٹ پتہ چلا،وہ میری بیٹی سے 5سالوں سے جھوٹ ہی بول رہا تھا،اپنی پہلی بیو ی سے معاہدہ کیا ہوا تھاکہ نہ میری بیٹی سے کوئی اولاد پیدا کرےگا اور نہ ہی اسے اپنے پاس لندن بلائے  گااور اپنی پہلی بیوی کو صاف بولا ہوا تھاکہ میں نے اپنے ماں باپ کی خدمت کے لیے شادی کی ہے،تاکہ میرے ماں باپ کی خدمت کرے۔

میری بیٹی اب میرے داماد کے  ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور میرے داماد کی ایسی حالت نہیں ہے کہ وہ اسے چھوڑ سکے،وہ پاکستان نہیں آسکتا،یہ خلع لینا چاہتی ہے،اگر ہم قانون کے ذریعہ کورٹ سےخلع لیں تو شریعت اسے قبول کرے گی؟دین میری بیٹی کو  خلع کی اجازت دیتا ہے یا نہیں ،اگر ہم خلع کے پیپر لندن بھیج کر اپنے داماد کا انگھوٹا لگوائیں تو خلع ہوجائے گی؟

میری بیٹی 3سالوں سے انتظار کررہی ہے اور مزید کتناا انتظار کرے گی؟اس کا شوہر تو پہلے سے ہی دھوکہ دے رہا تھا،میری بیٹی اپنےشوہر کے پاس کبھی نہیں جاسکتی،میرا داماد اپنی بیوی کے ساتھ خوش تھا۔

 ہم نے یہ فتویٰ نکلوانا ہے کہ میری بیٹی خلع لے سکتی ہے یا نہیں؟دین اسے کس چیز کی اجازت دیتا ہے؟

 اس کے بارے میں بھی پتہ کرنا ہے کہ جو زیورات میری بیٹی کو شادی کے موقعہ پر بری میں اپنے سسرال سے ملے تھے وہ خلع کے بعد میری بیٹی کے ہی ہوں گےیا نہیں؟

وضاحت:سائلہ کا داماد اپنی  بیوی یعنی سائلہ کی بیٹی کا نان ونفقہ اداکر رہا تھا۔

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں خلع بھی دیگر مالی معاملات کی طرح ایک معاملہ ہے،جس طرح دیگر مالی معاملات میں اگر کوئی ایک فریق راضی ہواور دوسرا فریق راضی نہ ہو تو شرعاً وہ مالی معاملہ منعقد نہیں ہوتا،اسی طرح خلع بھی زوجین کی رضامندی کے بغیر معتبر اور درست نہیں ہوتا،خواہ  وہ عدالتی خلع کا فیصلہ ہی کیوں نہ ہو۔    

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب تک سائلہ کا داماد ہوش میں نہیں آجاتا،تب تک سائلہ کی بیٹی کے خلع کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا،سائلہ کی بیٹی کو چاہیے کہ اپنے شوہر کے ہوش میں آنے کا انتظار کرے۔

باقی جو زیورات شادی کے موقعہ پر سائلہ کی بیٹی کو سسرال والوں کی طرف سے بری میں ملے تھے،ان کے متعلق حکم یہ ہے کہ اگر زیورات دیتے وقت سسرال والوں نےاس بات  کی صراحت کی تھی کہ یہ  بطورِ عاریت یعنی صرف  استعمال کرنے کے لیے ہیں  تو پھر یہ  زیورات سسرال والوں کی ملکیت ہوں گے اور اگرسسرال والوں نےہبہ (گفٹ) اور  مالک بناکر دینے کی صراحت کردی تھی تو پھر یہ زیورات سائلہ کی بیٹی کی  ملکیت ہوں گےاور اگرسسرال والوں نے  زیورات دیتے وقت کسی قسم کی صراحت نہیں  کی تھی تو پھر ان کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا، اگر ان کا عرف و رواج بطورِ ملک دینے کا ہے  یا ان کا کوئی رواج نہیں ہے تو ان دونوں صورتوں یہ زیورات سائلہ کی بیٹی کی ملکیت ہوں گےاور اگر  بطورِ عاریت دینے کا رواج ہے تو پھر  سسرال والے ہی ان زیورات کے مالک ہوں گے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما ركنه (أي الخلع) فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول"

(كتاب الطلاق،‌ فصل وأما الذي يرجع إلى المرأة، ج:3، ص:145، ط:سعید)

رد المحتار میں ہے:

"ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية"

(کتاب النکاح، باب المھر، ج:3، ص:153، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية"

(کتاب النکاح، الباب السابع، الفصل السادس، ج:1، ص:228، ط:رشیدیہ)

 فتاوی دار العلوم دیوبند میں ایک سوال کے جواب میں ہے:

"عدالت سے ڈگری خلع کی بدون رضامندی شوہر کے نہیں ہو سکتی اگر ہوگی تو وہ شرعا صحیح نہ ہوگی"

(فتاویٰ دار العلوم دیوبند،ج:10،ص:127،ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100810

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں