میں ایک متوسط طبقہ کا آدمی ہوں، میں نے کام کے سلسلے میں ایک اجنبی عورت کے ساتھ فون پر بات کی، جس کو میری بیوی نے سن لیا اور جھگڑا کیا، جس پر میں نے وعدہ کیا کہ آئندہ سے میں بات نہیں کروں گا، اس معاملے کے 3 ماہ بعد اس فون کی ریکارڈنگ سوشل میڈیا پہ عام کردی گئی، جس کی وجہ سے پورے معاشرے میں بڑی ذلت ہوئی، اب وہ میکے جانے کے بعد الگ گھر کا مطالبہ کرتی ہے، جب کہ میں اپنے ماں باپ کے ساتھ الگ کمرہ بناکر رہتاہوں اور میں اپنے والدین کی بھی خدمت کرتاہوں۔
سوال یہ ہے کہ ایک مفتی صاحب کا کہنا ہے کہ:
(1) والدین کو کماکر کھلانا میری ذمہ داری نہیں۔
(2)بیوی کا الگ گھر کا مطالبہ کرنا یہ ان کا حق ہے۔
(3) ان سارے أحول میں ذلیل کرنے والی عورت ناشزہ ہوگی؟ کیا ایسی عورت کو طلاق دینا جائز ہے؟
۱)واضح رہے کہ شرعاً شوہر پر یہ تو واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی کے نان و نفقہ اور رہائش کا انتظام کرے، اسی طرحرہائش کے لیے ایک الگ کمرہ اور باورچی خانہ اور بیت الخلا کی سہولت دینا ضروری ہے، لیکن الگ جگہ پر گھر لے کر دینا شوہر پرشرعاً واجب نہیں ہے، ہاں اگر شوہر الگ گھر میں ٹھہرانے کی استطاعت رکھتا ہے اور اس میں مصلحت بھی سمجھتا ہو تو اس کی بھی گنجائش ہے۔
۲) اگر والدین اپنا خرچہ خود اٹھا نہ سکتے ہوں اور ان کی اولاد صاحبِ حیثیت ہو یعنی اپنا خرچہ چلانے کے ساتھ والدین کا خرچہ بھی اٹھا سکتی ہو تو والدین کے خرچے کی ذمہ داری بیٹوں اور بیٹیوں دونوں پر برابر برابر واجب ہوگی، یہ اولاد کے ذمے والدین کا واجبی حق ہے، اس ضابطے کی روشنی میں آپ اپنے گھر کی صورتِ حال دیکھ لیجیے، اگر آپ کے والدین کے نفقے کا انتظام نہیں ہے تو آپ کی استطاعت کے بقدر آپ کے ذمے ان کا نفقہ بھی ہوگا، جو آپ کے دیگر بھائیوں اور بہنوں کے موجود ہونے کی صورت میں سب پر تقسیم ہوگا۔ اور اگر آپ کے والدین کو ضرورت نہیں ہے تو بھی والدین کے ساتھ نیک سلوک کرتے رہنا چاہیے، لہٰذا بیوی کو جدا کمرہ، باورچی خانہ اور کچن اور نفقہ وغیرہ دینے کے بعد آپ کی گنجائش ہو تو وقتًا فوقتًا والدین کی خدمت کرتے رہیے۔
۳) بیوی اگر شوہر کی اجازت کے بغیر بلا وجہ میکے میں بیٹھی ہو وہ ناشزہ ہونے کی وجہ سے نفقہ کی حق دار نہیں، جب تک وہ واپس شوہر کے گھر نہ آجائے یا شوہر اس کو میکے میں رہنے کی اجازت نہ دے دے اس وقت تک شوہر کے ذمہ اس کا نان نفقہ دینا واجب نہیں ہے۔
اگر آپ کی بیوی آپ کے ہاں آجاتی ہے تو محض شوہر کی بے عزتی کرنے سے (نفقہ ساقط ہونے کے حوالے سے) بیوی پر ناشزہ کا حکم نہیں لگے گا، البتہ شوہر کے بارے میں بیوی کا ایسے الفاظ استعمال کرنا جس سے شوہر کی تذلیل و توہین ہو، اور کسی کی نجی گفتگو کا اِفشا کرنا سخت گناہ کی بات ہے، کسی بھی مسلمان کوبلا وجہ ذلیل کرنا گناہِ کبیرہ ہے، اور شوہر کا تو بیوی پر بہت بڑا حق ہے، حدیثِ پاک میں ہے کہ اگر میں کسی کو دوسرے کو سجدے کا حکم دیتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ شوہر کو سجدہ کرے۔ بہر حال شوہر کی بے عزتی کرنے والی بیوی سخت گناہ گار ہے، اسے سچے دل سے اللہ تعالیٰ کے حضور بھی توبہ کرنی چاہیے، اور اپنے شوہر سے بھی معافی مانگنی چاہیے، اگر وہ تائب نہیں ہوتی اور شوہر بھی اس کوتاہی پر معاف نہیں کرتا تو حدیثِ پاک میں ایسی عورت کے لیے وعید ہے۔ اگر عورت معافی مانگ لیتی ہے تو بہتر، اگر وہ معافی نہیں مانگتی اور بدزبانی کی عادت بنا لیتی ہے، اور نصیحت اور سمجھانے سے بھی باز نہیں آتی تو شوہر اپنے احوال دیکھتے ہوئے اسے نکاح سے خارج کرنے کا حق رکھتاہے۔
نیز مرد کے لیے نامحرم عورتوں سے بلاضرروت گفتگو، ہنسی مذاق اوربے تکلفی کرنا جائز نہیں، نیز یہ عمل سخت فتنہ کاموجب ہے۔اور خاندانوں میں توڑ کا سبب بھی بن جاتا ہے، لہٰذا شوہر کو بھی اس طرح کے کاموں سے اجتناب کرنا لازم ہے۔ اگر کسی نامحرم سے بات چیت کی ضرورت پیش بھی آئے تونگاہ نیچی کرکے بات چیت کی جائے، لہجے میں بھی شدت ہونی چاہیے۔
قوله تعالی:
{أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ} [الطلاق: 6]
في تفسير ابن كثير:
’’ {أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ} أَيْ عِنْدَكُمْ {مِنْ وُجْدِكُمْ} قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَمُجَاهِدٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ: يَعْنِي سَعَتِكُمْ حَتَّى قَالَ قَتَادَةُ: إِنْ لَمْ تَجِدْ إِلَّا جَنْبَ بَيْتِكَ فأسكنها فيه."
تفسير ابن كثير ط العلمية (8 / 174):
وفي تفسير الطبري:
"حدثني يونس، قال: أخبرنا ابن وهب، قال: قال ابن زيد: وسألته عن قول الله عز وجل: {أسكنوهن من حيث سكنتم من وجدكم} [الطلاق: 6] قال: من مقدرتك حيث تقدر، فإن كنت لاتجد شيئًا، وكنت في مسكن ليس لك، فجاء أمر أخرجك من المسكن، وليس لك مسكن تسكن فيه، وليس تجد فذاك، وإذا كان به قوة على الكراء فذاك وجده، لا يخرجها من منزلها، وإذا لم يجد وقال صاحب المسكن: لا أنزل هذه في بيتي فلا، وإذا كان يجد، كان ذلك عليه".
(تفسير الطبري ط هجر(23 / 60)
وفي الدر المختار:
(وكذا تجب لها السكنى في بيت خال عن أهله).. (وأهلها) .. (بقدر حالهما) كطعام وكسوة وبيت منفرد من دار له غلق. زاد في الاختيار والعيني: ومرافق، ومراده لزوم كنيف ومطبخ، وينبغي الإفتاء به بحر (كفاها) لحصول المقصود هداية. وفي البحر عن الخانية: يشترط أن لا يكون في الدار أحد من أحماء الزوج يؤذيها،
وفي حاشية ابن عابدين (رد المحتار):
" (قوله: وأهلها) أي له منعهم من السكنى معها في بيته سواء كان ملكا له أو إجارة أو عارية
(قوله: وبيت منفرد) أي ما يبات فيه؛ وهو محل منفرد معين قهستاني. والظاهر أن المراد بالمنفرد ما كان مختصا بها ليس فيه ما يشاركها به أحد من أهل الدار
(قوله: ومفاده لزوم كنيف ومطبخ) أي بيت الخلاء وموضع الطبخ بأن يكونا داخل البيت أو في الدار لا يشاركها فيهما أحد من أهل الدار. قلت: وينبغي أن يكون هذا في غير الفقراء الذين يسكنون في الربوع والأحواش بحيث يكون لكل واحد بيت يخصه وبعض المرافق مشتركة كالخلاء والتنور وبئر الماء ويأتي تمامه قريبا
(قوله: وفي البحر عن الخانية إلخ) عبارة الخانية: فإن كانت دار فيها بيوت وأعطى لها بيتا يغلق ويفتح لم يكن لها أن تطلب بيتا آخر إذا لم يكن ثمة أحد من أحماء الزوج يؤذيها. اهـ.
قلت: وفي البدائع: لو كان في الدار بيوت وجعل لبيتها غلقا على حدة قالوا: ليس لها أن تطالبه بآخر. اهـ فهذا صريح في أن المعتبر عدم وجدان أحد في البيت لا في الدار.
والذي رأيته في الملتقط لأبي القاسم الحسيني وكذا في تجنيس الملتقط المذكور للإمام الأسروشني هكذا: أبت أن تسكن مع ضرتها أو صهرتها، إن أمكنه أن يجعل لها بيتا على حدة في داره ليس لها غير ذلك، وليس للزوج أن يسكن امرأته وأمه في بيت واحد؛ لأنه يكره أن يجامعها وفي البيت غيرهما؛ وإن أسكن الأم في بيت داره والمرأة في بيت آخر فليس لها غير ذلك. وذكر الخصاف أن لها أن تقول: لا أسكن مع والديك وأقربائك في الدار فأفرد لي دارا.
قال صاحب الملتقط: هذه الرواية محمولة على الموسرة الشريفة، وما ذكرنا قبله أن إفراد بيت في الدار كاف إنما هو في المرأة الوسط اعتبارا في السكنى بالمعروف. اهـ...
وعلى ما نقلنا عن ملتقط أبي القاسم وتجنيسه للأسروشني أن ذلك يختلف باختلاف الناس، ففي الشريفة ذات اليسار لا بد من إفرادها في دار، ومتوسط الحال يكفيها بيت واحد من دار. (3 / 599)
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4 / 30):
وَأَمَّا نَفَقَةُ الْوَالِدَيْنِ فَلِقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَقَضَى رَبُّكَ أَلا تَعْبُدُوا إِلا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا} [الإسراء: 23] أَيْ: أَمَرَ رَبُّك وَقَضَى أَنْ لَا تَعْبُدُوا إلَّا إيَّاهُ.
أَمَرَ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى وَوَصَّى بِالْوَالِدَيْنِ إحْسَانًا، وَالْإِنْفَاقُ عَلَيْهِمَا حَالَ فَقْرِهِمَا مِنْ أَحْسَنِ الْإِحْسَانِ وَقَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَوَصَّيْنَا الإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا} [العنكبوت: 8] وقَوْله تَعَالَى: {أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ} [لقمان: 14] وَالشُّكْرُ لِلْوَالِدَيْنِ هُوَ الْمُكَافَأَةُ لَهُمَا أَمَرَ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى الْوَلَدَ أَنْ يُكَافِئَ لَهُمَا وَيُجَازِيَ بَعْضَ مَا كَانَ مِنْهُمَا إلَيْهِ مِنْ التَّرْبِيَةِ وَالْبِرِّ وَالْعَطْفِ عَلَيْهِ وَالْوِقَايَةِ مِنْ كُلِّ شَرٍّ وَمَكْرُوهٍ وَذَلِكَ عِنْدَ عَجْزِهِمَا عَنْ الْقِيَامِ بِأَمْرِ أَنْفُسِهِمَا وَالْحَوَائِجِ لَهُمَا وَإِدْرَارُ النَّفَقَةِ عَلَيْهِمَا حَالَ عَجْزِهِمَا وَحَاجَتِهِمَا مِنْ بَابِ شُكْرِ النِّعْمَةِ فَكَانَ وَاجِبًا وَقَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ {وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا} [لقمان: 15] وَهَذَا فِي الْوَالِدَيْنِ الْكَافِرَيْنِ فَالْمُسْلِمَانِ أَوْلَى وَالْإِنْفَاقُ عَلَيْهِمَا عِنْدَ الْحَاجَةِ مِنْ أَعْرَفِ الْمَعْرُوفِ وَقَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: {فَلا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلاتَنْهَرْهُمَا} [الإسراء: 23] وَأَنَّهُ كِنَايَةٌ عَنْ كَلَامٍ فِيهِ ضَرْبُ إيذَاءٍ، وَمَعْلُومٌ أَنَّ مَعْنَى التَّأَذِّي بِتَرْكِ الْإِنْفَاقِ عَلَيْهِمَا عِنْدَ عَجْزِهِمَا وَقُدْرَةِ الْوَلَدِ أَكْثَرُ فَكَانَ النَّهْيُ عَنْ التَّأْفِيفِ نَهْيًا عَنْ تَرْكِ الْإِنْفَاقِ دَلَالَةً، كَمَا كَانَ نَهْيًا عَنْ الشَّتْمِ وَالضَّرْبِ دَلَالَةً.
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144203201144
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن