اگر شوہر بیوی کو مار رہا ہو اور بیوی غصے میں شوہر کو "حرامی" گالی دے تو کیا نکاح ٹوٹ جاتا ہے ؟
صورتِ مسئولہ میں نکاح تو نہیں ٹوٹے گا،البتہ یہ بات یاد رکھی جائے کہ بیوی کے لیے اپنے شوہر کو گالی دینا بالکل درست نہیں ہے، حرام ہے، شوہر کا بیوی پر بہت بڑا حق ہے، اس کا ندازہ اس حدیث مبارکہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:"اگر میں کسی کو کسی کے آگے سجدہ کا حکم کرتا تو میں عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔" لہٰذا ایسا کہنے سے بیوی سخت گناہ گار ہوئی، اسے سچے دل سے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنی چاہیے اور اپنے شوہر سے بھی خوب معافی مانگنی چاہیے۔
نیز شوہر کے لیے بھی یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی کو بلا وجہ مارتا رہے، یہ انتہائی غیر مہذب اور خلافِ مروت عمل ہے، بیوی اگر نافرمان ہو، اور شوہر اس کی اصلاح کرنا چاہتا ہوتو اس کی اصلاح کے درجات ہیں، پہلا درجہ یہ ہے کہ نرمی سے اس کو سمجھائے ،اگربیوی محض سمجھانے سے باز نہ آئے، تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ شوہر اپنا بستر علیحدہ کر دے، تاکہ وہ اس علیحدگی سے شوہر کی ناراضی کا احساس کر کے اپنے فعل پر نادم ہو جائے، اور جوعورت اس سزا سے بھی متاثر نہ ہو اور مرد کے لیے اب کوئی چارہ کار نہ رہے تو پھر بیوی کو ایسی معمولی مار مارنے کی اجازت ہے، جس سے اس کے بدن پر اثر نہ پڑے، اور ہڈی ٹوٹنے یا زخم لگنے تک نوبت نہ آئے اور اس میں بھی چہرے پر مارنا بالکل منع ہے، حدیث شریف میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:"کوئی شخص اپنی بیوی کو غلام کی طرح نہ مارے، پھر وہ اس سے دن کے آخر میں صحبت کرے گا"، یعنی جس سے مجامعت بھی کرتے ہو اور اس کو پیٹتے بھی ہو، کیا یہ مناسب بات ہے؟
بخاری شریف میں ہے:
"عن عبد الله بن زمعة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا يجلد أحدكم امرأته جلد العبد، ثم يجامعها في آخر اليوم."
(كتاب النكاح، باب ما يكره من ضرب النساء، ج:٥، ص:١٩٩٧، ط:دارابن كثير)
سنن ترمذی میں ہے:
"عن أبي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لو كنت آمرا أحدا أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها."
(باب ما جاء في حق الزوج على المرأة، ج:٢، ص:٤٥٣، ط:دارالغرب الإسلامي)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144601101688
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن