بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کی طرف سے تکالیف کی صورت میں طلاق کا حکم


سوال

1۔کیا بیوی سے اس کی تنخواہ لینا جائز ہے؟ اگر وہ گھر آباد رکھنے کے لیے خوشی سے ساری تنخواہ گھر میں اپنی ساس اور شوہر کو دے رہی ہو؟

2۔میں  نے  مستقل  نوکری  کی  اور  ہمیشہ  شوہر  کا  سا  تھ  دیا  لیکن  شوہر  کی  شکایتیں  کبھی  ختم  نہیں  ہوتی  تھیں  اور  ہر  چیز  کا  الزام  مجھ  پر  لگا  دیتے  تھے  یہاں  تک  کہ  ایک  مرتبہ  حمل  مس  کیرج  ہوگیا  تو  اس  کا  الزام  بھی  بیوی  پر  لگایا   ،پھر  ایک  مرتبہ  لڑائی  ہوئی  تو  اکیلا  چھوڑ  دیا  اور  آخر    میں    بات  طلاق  تک  پہنچ  گئی    اور  بجائے  منانے  کو    شوہر  نے  طلاق  بھجوادی  ۔

3۔ اب  اس  لڑکی  کو  لگتا  ہے  کہ  یہ  سب  اس  کی  وجہ  سے  ہوا  ہے  اور  اب  اکثر  اداس  رہتی  ہے  ۔

جواب

واضح  رہے  کہ  جب  کمانے  والا  شوہر  موجود  ہے  تو  عورت  کو  جاب(ملازمت  )  کرنے    کے  لئے  گھر  سے  باہر  نکلنے  کی  حاجت ہے  اور  نہ  ہی  دین  اسلام  میں  یہ  بات  پسندیدہ  ہے  کہ  عورت  بلا  ضرورت  شدیدہ    نوکری  کے  لئے  گھر  سے  باہر  نکلے ، کیوں کہ یہ بہت سی خرابیوں اور مفاسد کا باعث بنتا ہے، اسی لیے شریعتِ مطہرہ نے عورت کے نان و نفقہ کی ذمہ داری اس کے سرپرست پر رکھی ہے یعنی اگر وہ بیٹی ہے تو باپ کے ذمہ اس کے اخراجات اٹھانا لازم ہے، اور اگر وہ ماں ہے تو   اولاد اس کے نان و نفقہ کی ذمہ دار ہے، اور اگر وہ بیوی ہے تو شوہر اس کے اخراجات کا ذمہ دار ہے، البتہ اگر کوئی مجبوری ہو  (مثلًا کوئی ایسا مرد نہ ہو جو کما کر عورت کی کفالت کرسکے) تو اس صورت میں اگر عورت مکمل پردہ کے ساتھ نوکری کے لیے گھر سے نکلے  تو اس کی گنجائش ہے، لیکن صرف شوقیہ اور بغیر پردے کے عورتوں کا دفتروں میں کام کرنا، اور مردوں کے ساتھ اختلاط کرنا شریعتِ مطہرہ میں جائز نہیں ہے۔

اسی طرح  شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کا ملازمت کے لیے گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے، البتہ شدید مجبوری کی صورت میں اگر عورت شوہر کی اجازت سے  مکمل پردے کے ساتھ ملازمت کے لیے گھر سے نکلے تو اس کی گنجائش ہوگی بشرطیکہ ملازمت کی جگہ پر  نامحرم مردوں کے ساتھ  تنہائی  یا اختلاط  اور بلاضرورت بات چیت نہ ہو۔ لیکن اس صورت میں ملازمت سے حاصل کردہ کمائی عورت  کی اپنی ذاتی ملکیت ہی ہوگی، اپنی کمائی شوہر کو دینا اس پر لازم نہ ہوگا اور شوہر بھی  اپنی بیوی کی اجازت کے بغیر اس میں تصرف نہیں کر سکتا، بیوی چاہے تو خود خرچ کرے، چاہے تو شوہر اور اولاد پر بھی خرچ کر سکتی ہے۔ شوہر کو نہ دینے کی صورت میں گناہ گار تو نہیں ہوگی، البتہ اگر شوہر اور اولاد پر بھی خرچ کردے گی تو  وہ دوہرے اجر و ثواب کی مستحق ہوگی، ایک قرابت داری کا اور دوسرا صدقہ کرنے کا۔ چنانچہ ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینب رضی اللہ عنها سے فرمایا کہ ان کو اپنے ضرورت مند شوہر اور بچوں پر خرچ کرنے کی صورت میں دہرا اجر ملے گا، ایک قرابت داری کا اور دوسرا صدقہ کا ثواب۔

2۔ طلاق دینے کے لیے زبان سے  طلاق کے الفاظ ادا کرنا ضروری نہیں ہے،  جس طرح زبانی طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، اسی طرح تحریری طور پر  طلاق دینے سے  بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے  خواہ وہ تحریر خود لکھی ہو یا کسی سے لکھوائی  اور خواہ بیوی کو ڈرانے، دھمکانے کے لیے ہو یا مذاقاً ہو یا کسی اور نیت سے ہو ، نیز   چوں کہ طلاق دینے کا اختیار شوہر کو حاصل ہے، اور شوہر کے طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجاتی  ہے۔

3۔طلاق  اللہ  رب  العزت  کے  نزدیک سخت  ناپسند  ہے  اور  حلال  کاموں  میں  سب  سے  زیادہ  مبغوض  ہے  ،لہذا  حتی  الامکان  کوشش  کرنی  چائیے  کہ  طلاق  کی  نوبت  نہ  آئے  لیکن  اگر  واقعتا  صرف    شوہر    کی  طرف  سے  ہی      تکالیف  کا  سلسلہ  ہو  اور    اس  صورت  میں  طلاق  کی  نوبت  آجائے  جیسا  کہ  صورت  مذکور ہ  میں  بیان  کیا  گیا  ہے  تو  اس  میں  عورت  پر  کوئی  گناہ  نہیں ،بس  جو  ہوگیا  اس  پر  صبر  کرے  اور  آئندہ  کی  زندگی  کیسے  گزارنی  ہے  اس  بارے میں  اپنے  سرپرستوں  سے  مشاورت  کر  کے  عمل  کرے  ۔

بخاری شریف کی حدیث میں ہے:

لھا اجران اجر القرابۃ واجر الصدقۃ۔ "

(بخاری،کتاب الزکاۃ،حدیث نمبر:1466

حدیثِ مبارک  میں ہے:

"وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ثلاث جدهن جد وهزلهن جد: النكاح والطلاق والرجعة ". رواه الترمذي وأبو داود وقال الترمذي: هذا حديث حسن غريب".

 (مشکوٰۃ، 2/284، باب الخلع والطلاق، ط: قدیمی)

ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ عورت چھپانے کی چیز ہے، جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اسے دوسروں کی نظروں میں اچھا کر کے دکھاتا ہے۔

سنن الترمذي ت بشار (2/ 467):

'' عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفها الشيطان».هذا حديث حسن صحيح غريب''.

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو كتب على وجه الرسالة والخطاب، كأن يكتب يا فلانة: إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق طلقت بوصول الكتاب، جوهرة".

وفي الرد:

"وإن كانت مرسومةً يقع الطلاق نوى أو لم ينو ... ولو قال للكاتب: اكتب طلاق امرأتي كان إقراراً بالطلاق وإن لم يكتب؛ ولو استكتب من آخر كتاباً بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها، وقع إن أقر الزوج أنه كتابه أو قال للرجل: ابعث به إليها، أو قال له: اكتب نسخةً وابعث بها إليها". 

(3/246، کتاب الطلاق، مطلب فی الطلاق بالکتابۃ، ط: سعید)

الجامع لأحكام القرآن (11/ 253):

'' وإنما خصه بذكر الشقاء ولم يقل فتشقيان : يعلمنا أن نفقة الزوجة على الزوج ؛ فمن يومئذٍ جرت نفقة النساء على الأزواج ، فلما كانت نفقة حواء على آدم، كذلك نفقات بناتها على بني آدم بحق الزوجية''.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101281

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں