بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کی رضامندی کے بغیربیوی کا عدالت سے خلع لینا


سوال

کیا بیوی کا شوہر کی  رضامندی کے بغیر عدالت سے خلع لے کر دوسری جگہ نکاح کرنا شرعا جائزہے؟

جواب

واضح رہے کہ خلع ایک مالی معاملہ کی طرح ہےجس طرح دیگر معاملات کے معتبر  اور درست ہونے کے لیے جانبین کی رضامندی شرعا ضروری ہوتی ہے اسی طرح  خلع کے معتبر اور درست  ہونے کہ لیے بھی عاقدین (میاں بیوی )  کی رضامندی شرعا ضروری ہوتی ہے، کوئی ایک فریق راضی ہودوسرا راضی نہ ہو تو ایسا خلع شرعا معتبر نہیں ہوتا   ۔

لہذا بیوی کا شوہرکی رضامندی کے بغیر عدالت سے یک طرفہ  خلع کی ڈ گری حاصل کر کے دوسری جگہ نکاح کرنا شرعاً درست نہیں ۔

بدائع الصنائع میں ہے :

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة، ولايستحق العوض بدون القبول.

(کتاب الطلاق، فصل في قبول العوض والخلع ج: 4 ص: 376 ط: دار النشر)

تبیین الحقائق میں ہے :

"ولا بدّ من قبولها؛ لأنه عقد ‌معاوضة أو تعليق بشرط فلا تنعقد المعاوضة بدون القبول، ولأن المعلّق ينزل بدون الشرط إذ لا ولاية لأحدهما في إلزام صاحبه بدون رضاه."

(کتاب الطلاق ، باب الخلع ج: 3 ص: 189 ط: دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101120

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں