آج سے چند سال قبل میری شادی ہوئی، الحمدللہ اللہ تعالی نے دو بچوں سے نوازا ہے، برسر روزگار ہوں، گھر اپناہے، گھریلو کچھ معاملات میں میرے اور میری اہلیہ کے درمیان چھوٹا موٹا اختلاف بھی ہو جاتا ہے، جیسا کہ اکثرگھروں میں رہتا ہے، لیکن بہرحال کوئی بڑا اختلاف جس سے نوبت طلاق تک پہنچ جائے، نہیں ہوا، ہاں البتہ میری بیگم کے والدین کی طرف سے بےجا دخل اندازیاں مختلف مواقع پر ہوتی رہیں، لیکن اس کا بھی میں نے کوئی بہت زیادہ بدتمیزی یا توہین آمیز لب و لہجے میں جواب نہیں دیا، بلکہ ہمیشہ ادب و احترام کا پہلو ملحوظ رکھا، لیکن اس کے باوجود میرے سسرال کی مجھ سے ہر طرح کی بدتمیزی اور بدمعاشی کی کوئی حد نہیں رہی، انتہایہ کہ میری ساس ، سسر نے اپنی بیٹی یعنی میری بیوی کو میری اجازت کے بغیر لے جا کر اپنے گھر روک رکھا ہے، اور مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر ہمارا داماد( یعنی میں) ہمارے ساتھ یعنی ہمارے علاقے میں ہماری ماتحتی میں رہے گا، تو ہم اپنی بیٹی (یعنی میری بیوی) کا گھر بسانے دیں گے، ورنہ اپنی بیٹی کو شوہر (یعنی میرے ساتھ) رہنے نہیں دیں گے۔
میں بوجہ مجبوری اپنی والدہ سے دور کسی دوسرے علاقے میں سکونت اختیار نہیں کر سکتا، کیوں کہ میرے والد محترم حیات نہیں، بھائی چھوٹے ہیں اور والدہ محترمہ بھی فالج زدہ بدن بیمار ہیں، ہاں میں یہ کرنے کے لیے تیار ہوں کہ اگر میری بیوی میری والدہ محترمہ کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تو اس کو علیحدہ مکان میں ٹھہرانے پر رضامند ہوں ، لیکن ساس سسر اس پر رضامند نہیں، اور میری بیوی کو غلط پٹیاں پڑھا کر ورغلایا ہے، اس مسئلہ کو تین سال مکمل ہو چکے ہیں، جب بھی اس معاملہ میں گفتگو ہونے لگتی ہے تو سسرال والے اپنے مطالبات کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتے، میں خود سے طلاق دینے کے حق میں نہیں ہوں، اور نہ ہی میری بیوی اور اس کے والدین نے مجھ سے خلع کے متعلق کوئی بات کی ہے، بلکہ عدالت میں مقدمہ درج کر کے بے بنیاد الزامات لگا کر(مثلا شوہر یعنی میں کماتا نہیں ہوں اور میرا رویہ بیوی کے ساتھ مناسب نہیں ہے اور جو دور حاضر میں وکلاء کے پاس خاوند کے مظالم کی فہرست تیار ہوتی ہے) یک طرفہ خلع کی ڈگری حاصل کر لی، اور اس دوران بھی عدالت نے نہ مجھے بلایا ہے اور نہ ہی میرے پاس سمن آیا ہے اور نہ ہی کسی معتبر ذریعہ سے کسی قسم کی کوئی اطلاع دی گئی ، عدالت کے اس ایک طرفہ فیصلے کو میں تسلیم نہیں کرتا، اگر میری بیوی کو خلع چاہیے تو میں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں جو اخلاق و معاشرے کے مطابق ہو دے دوں گا، لیکن عدالت کے اس ایک طرفہ غیر اخلاقی فیصلے کو میں ماننے کے لیے قطعا تیار نہیں ہوں، لہذا مذکور ہ تفصیل کی روشنی میں چند سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
1۔کیا عدالت کا یک طرفہ خلع کا فیصلہ کرتے ہوئے خلع کی ڈگری جاری کرنا دین اسلام کی رو سے درست ہے؟ اور کیا اس فیصلے سے خلع واقع ہو گیا ہے؟
2۔کیا اس صورت میں شوہر یعنی مجھ پر بیوی کا خرچہ ادا کرنا واجب ہے؟ جب کہ بیوی نے اپنے آپ کو شوہر کے حوالے کرنے سے انکار کر دیاہے، اور بچوں کا خرچہ کس کے ذمہ ہے؟
3۔ کیا سسرال کا داماد سے مذکور ہ مطالبہ کہ میں ان کی ماتحتی میں ان کے ساتھ یا ان کے علاقے میں رہائش اختیار کروں، کرنا صحیح ہے؟ اور کیااس کو پورا کرنا ضروری ہے؟ جب کہ میری مجبوری ظاہر ہے۔
4۔ میں اپنے بچوں کے بیوی کے پاس رہنے کی وجہ سے ان کی کفالت کےحوالے سے مطمئن نہیں ہوں، لہذا طلاق یا خلع کے بعد بچوں کی کفالت اپنے ذمہ میں لینا چاہتا ہوں، تو اس کا کیا حکم ہے؟ بچوں میں ایک 5 سال کی بیٹی اور ایک 8 سال کی بیٹی ہے،اور ان بچوں کا خرچہ کس کے ذمہ ہے؟
5۔ شادی کے بعد جہیز کا سامان بیوی کے گھر والے پہلے ہی لے جا چکے تھے، اور پھر میں نے اپنے پیسوں سے گھر کا سامان خریدا تھا، وہ بھی اس کے گھر والے لے گئے، لہذا میں اس سامان کی واپسی یا سامان کے بدلے ایک لاکھ روپے کا مطالبہ کرنا چاہتا ہوں، اس کا کیا حکم ہے؟
6۔بیوی نے مجھ پر الزام لگایا ہے کہ میں ہیروئن ، کرسٹل اور آئس کا نشہ کرتا ہوں، جب کہ میں فقط چرس کا نشہ کرتا ہوں۔
1۔ واضح رہے کہ شریعت میں ایک طرفہ خلع کی کوئی حیثیت نہیں ، خلع کے لیے میاں بیوی کی رضامندی ضروری ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں چوں کہ منسلکہ یک طرفہ عدالتی خلع میں چوں کہ شوہر کی رضامندی شامل نہیں، اس لیے اس سے شرعی خلع قرار نہیں دیا جا سکتا، نیز اسے شرعا تنسیخ نکاح بھی قرار نہیں دیا جا سکتا ، کیوں کہ تنسیخ نکاح کی شرائط اس میں پائی نہیں جاتیں ،مدعیہ نے مدعی علیہ پر جو الزامات لگاۓ ہیں ان کو شرعی گواہوں کے ذریعہ ثابت نہیں کیا، لہذا شرعا نکاح برقرار ہے، البتہ اگر شوہر عدالتی خلع کو تسلیم کرتے ہوں ، اس پر دستخط کر دے، تو پھر شرعا خلع قرار پاۓ گا، اور نکاح ختم ہو جائے گا۔
2۔آپ کی بیوی آپ کے نکاح میں ہےاور اگرآپ کی اجازت کے بغیر میکے میں رہ رہی ہے تو اس کا نان نفقہ بھی آپ پر لازم نہیں ہے، البتہ بچوں کا خرچہ بہر صورت آپ کے ہی ذمہ ہے۔
3۔سسرال کو داماد سے ان کی ماتحتی میں ان کے ساتھ یا ان کے علاقے میں رہائش اختیارکرنے کا مطالبہ کرنے کا حق نہیں ، اور نہ ہی شوہر پر اس مطالبہ کو پورا کرنا ضروری ہے،ہاں اگر شوہر بخوشی گھر بچانے کی خاطر اس بات کو مان لیتا ہے، تو ٹھیک، ورنہ کسی کو اس بات پر زور زبردستی کرنے کا اختیار نہیں ہے، البتہ شریعت نے عورت کو حکم دیا ہے کہ اسی جگہ رہے جہاں شوہر رہے، لہذا بیوی پر لازم ہے کہ شوہر کی ہر جائز بات مانے اور شوہر جس گھر میں رہے وہیں اس کے ساتھ رہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کی وفادار اور فرماں بردار رہے، اس کی خیرخواہی اور رضا جوئی میں کمی نہ کرے، اپنی دنیا اور آخرت کی بھلائی اس کی خوشی سے وابستہ سمجھے اور اس کے ہر جائز حکم کو خوش دلی سے بجا لانے کو اپنی سعادت سمجھے، اور شوہر کو بھی چاہیے کہ اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آۓ اور ان کو شکایت کا موقع نہ دے کہ طلاق یا خلع کی نوبت آۓ۔
4۔ طلاق یا شرعی خلع کے بعد دونوں بچیوں کی عمر نو سال ہونے تک پرورش کا حق ماں کو حاصل ہے، تاہم اگر ماں کسی ایسے شخص سے نکاح کرے، جو بچوں کےلیے نامحرم ہو تو اس کا حقِ پرورش ساقط ہوجائے گا، مذکورہ عمر کے بعد بچیوں کی شادی ہو جانے تک دونوں کی تربیت کا حق باپ کو حاصل ہوگا۔
5۔مذکورہ صورت میں سائل کی رقم سے خریدا ہوا گھر کے استعمال کا سامان اسی کی ملکیت ہے ،بیوی یا اس کے گھر والوں کے لیے اسے بغیراجازت اپنے ساتھ لے کر جانا جائز نہیں ، لہذا سائل کو اپنا سامان یا سامان کی قیمت کے مطالبے کا حق حاصل ہے۔
6۔سائل کسی بھی چیز کا نشہ کرتا ہے تو یہ انتہائی قبیح فعل اور حرام ہے، سائل کو چاہیے کہ اپنے اس عمل پر خوب توبہ و استغفار کرے اور آئندہ اس سے اجتناب کرے، البتہ اس عمل کے ساتھ ساتھ اگر بیوی کے حقوق میں کوتاہی نہیں کرتا توبیوی کو اس بنیاد پر فسخ نکاح کا دعوی کرنے کا حق حاصل نہیں۔
فتاوی شامی میں ہے :
"فقالت: خلعت نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية: لايتم الخلع ما لم يقبل بعده."
(باب الخلع، ج:3، ص:440، ط:دار الفكر - بيروت)
بدائع الصنائع میں ہے :
"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول، لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة، ولايستحق العوض بدون القبول."
(کتاب الطلاق، فصل في قوله طلقي نفسك، ج:3، ص:145، ط:دار الكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے :
"(لا) نفقة لأحد عشر: مرتدة، ومقبلة ابنه، ومعتدة موت ومنكوحة فاسدا وعدته، وأمة لم تبوأ، وصغيرة لا توطأ، و (خارجة من بيته بغير حق) وهي الناشزة حتى تعود ولو بعد سفره خلافا للشافعي، والقول لها في عدم النشوز بيمينها، وتسقط به المفروضة لا المستدانة في الأصح كالموت، قيد بالخروج؛ لأنها لو مانعته من الوطء لم تكن ناشزة."
(کتاب الطلاق، باب النفقة، ج:3، ص:576 ،ط:سعید)
بدائع الصنائع میں ہے:
" وأما بيان من له الحضانة، فالحضانة تكون للنساء في وقت، وتكون للرجال في وقت، والأصل فيها النساء؛ لأنهنّ أشفق وأرفق وأهدى إلى تربية الصغار، ثم تصرف إلى الرجال؛ لأنهم على الحماية والصيانة وإقامة مصالح الصغار أقدر."
(كتاب الحضانة، وأما بيان من له الحضانة، ج:8، ص:234، ط: دار الکتب العلمیة)
مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:
"(المادة 96) : لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه."
(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، ص:27، ط:دار الجیل)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدةً أو فاجرةً غير مأمونة، كذا في الكافي. سواء لحقت المرتدة بدار الحرب أم لا، فإن تابت فهي أحق به، كذا في البحر الرائق. وكذا لو كانت سارقةً أو مغنيةً أو نائحةً فلا حق لها، هكذا في النهر الفائق."
(کتاب الطلاق، الباب السادس عشر في الحضانة، ج:1، ص:541، ط:رشیدیة)
قرآن کریم میں ہے:
"أَسۡكِنُوهُنَّ مِنۡ حَيۡثُ سَكَنتُم مِّن وُجۡدِكُمۡ وَلَا تُضَآرُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُواْ عَلَيۡهِنَّۚ". (سورة الطلاق، الآیة: 6)
"ترجمہ: تم اپنی وسعت کے مطابق ان کو وہیں رکھو جہاں تم رہتے ہو اور ان کو تنگ کرنے کے لیے تکلیف نہ پہنچاؤ۔(احسن البیان، ج:8، ص: 177)"
فيض القديرمیں ہے:
"(أعظم الناس حقا على المرأة زوجها) حتى لو كان به قرحة فلحستها ما قامت بحقه ولو أمر أحد أن يسجد لأحد لأمرت بالسجود له فيجب أن لا تخونه في نفسها ومالها وأن لا تمنعه نفسها وإن كانت على ظهر قتب وأن لا تخرج إلا بإذنه ولو لجنازة أبويها."
(حرف الهمزة، ج:2، ص:5، ط:المكتبة التجارية الكبرى)
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان لعنتها الملائكة حتى تصبح»."
(کتاب النکاح، باب عشرۃ النساء، ج:2، ص:280، ط: قدیمی)
"ترجمہ: رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی مرد اپنی عورت کو ہم بستر ہونے کے لیے بلائے اور وہ انکار کردے، اور پھر شوہر (اس انکار کی وجہ سے) رات بھر غصہ کی حالت میں رہے تو فرشتہ اس عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔"
(مظاہر حق،ج:3، ص:258، ط؛ دارالاشاعت)
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو كنت آمر أحداً أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها» . رواه الترمذي."
(کتاب النکاح، باب عشرۃ النساء، ج:2، ص:281، ط: قدیمی)
"ترجمہ: رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اگر میں کسی کو یہ حکم کرسکتا کہ وہ کسی (غیر اللہ) کو سجدہ کرے تو میں یقیناً عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔"
(مظاہر حق، ج:3،ص:366، ط؛ دارالاشاعت)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد كذا في الجوهرة النيرة".
(کتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الاولاد، ج:1، ص:560، ط:رشيدية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511100453
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن