بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کی نافرمانی اور اجازت کے بغیر میکہ رہنے والی بیوی کا نان ونفقہ


سوال

اگر بیوی  شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر  جاتی ہو  اور جائز کاموں میں شوہر کی بات نہیں مانتی ہو اور شوہر کی اجازت کے بغیر اپنی ماں کے گھر میں رہتی ہو تو کیا ایسی صورت میں  بیوی کا نان ونفقہ شوہر پر لازم ہوگا یا نہیں؟

جواب

سوال میں ذکر  کردہ تفصیل اگر واقعہ کے مطابق اور درست ہے تو بیوی کا یہ رویہ اور طرز عمل  شرعا جائز نہیں ہے، بیوی پر جائز امور میں شوہر کی اطاعت اور فرمانبرادی  لازم ہے،ایک حدیث مبارک میں ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس عورت نے  (اپنی پاکی کے  دنوں میں پابندی کے ساتھ) پانچوں وقت کی نماز پڑھی،  رمضان کے روزے  (ادا اور قضا)  رکھے،  اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی  اور اپنے خاوند  کی فرماں برداری کی  تو (اس عورت کے لیے یہ بشارت ہےکہ) وہ جس دروازہ سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے“۔ لہذا  مذکورہ عورت کو چاہیے کہ وہ   جائز امور میں شوہر کی اطاعت کرے، اس کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلے، نیز شوہر کو بھی چاہیے کہ وہ  بھی بیوی کے حقوق  کی رعایت اور اس کی ضروریات کا خیال رکھے۔

باقی اگر  بیوی ، شوہر کے گھر میں رہتے ہوئے اس کی نافرمانی کرتی  ہے تو وہ گناہ گار تو ہوگی لیکن نفقہ کی حق دار ہوگی، البتہ  اگر وہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے چلی جائے یا  شوہر سے ناراض ہوکر اپنے میکہ میں رہے اور شوہر کے بلانے کے باوجود بھی نہ آئے تو ایسی صورت میں وہ  ان دنوں کے نان ونفقہ کی حق دار نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(لا) نفقة لأحد عشر ... و (خارجة من بيته بغير حق) وهي الناشزة حتى تعود ولو بعد سفره خلافا للشافعي، والقول لها في عدم النشوز بيمينها، وتسقط به المفروضة لا المستدانة في الأصح كالموت، قيد بالخروج؛ لأنها لو مانعته من الوطء لم تكن ناشزة، وشمل الخروج الحكمي كأن كان المنزل لها فمنعته من الدخول عليها فهي كالخارجة ما لم تكن سألته النقلة، ولو كان فيه شبهة كبيت السلطان فامتنعت منه فهي ناشزة لعدم اعتبار الشبهة في زماننا، بخلاف ما إذا خرجت من بيت الغصب أو أبت الذهاب إليه أو السفر معه أو مع أجنبي بعثه لينقلها فلها النفقة، وكذا لو أجرت نفسها لإرضاع صبي وزوجها شريف ولم تخرج، وقيل تكون ناشزة.

(قوله لو مانعته من الوطء إلخ) قيده في السراج بمنزل الزوج وبقدرته على وطئها كرها. وقال بعضهم: لا نفقة لها؛ لأنها ناشزة. اهـ والثاني وجيه في حق من يستحي، وهذا يشير إلى أن هذا المنع في منزلها نشوز بالاتفاق سائحاني.

(قوله: وقيل تكون ناشزة) أشار إلى ضعفه، وبه صرح في البحر، لكن قواه الرحمتي وغيره بأنه قائم بمصالحها وله منعها من الغزل ونحوه، وعن كل ما يتأذى برائحته كالحناء والنقش، والإرضاع أولى؛ لأنه يهزلها ويلحقه عار به إذا كان من الأشراف. أقول: وأنت خبير بأن هذا كله لا يدل للقول بأنها تصير بذلك ناشزة؛ لأنها الخارجة بغير حق كما مر، وإلا لزم أنها تصير ناشزة إذا خالفته في الغزل والنقش والحناء ونحو ذلك مما تخالف به أمره وهي في بيته، وفساده لا يخفى نعم يفيد أن له منعها من هذا الإيجار."

 (كتاب الطلاق، باب النفقة، 3/ 576، 577 ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144601101992

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں