بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کی جانب سے حقِ مہر ادا کرنے کے بعد ضامن سسر کی جائیداد سے دوبارہ مہر کے مطالبے کا حکم


سوال

مہر کے عوض پانچ کنال زمین دی  گئی ہے  مہر معجل کےطور پر ، نکاح نامے پر دولہا اور دیگر گواہان کے دستخط موجود ہیں جب کہ دولہے کے والد کے دستخط موجود نہیں ہیں۔جب کہ شادی کے وقت دولہا کے نام کوئی جائیداد نہیں ہے،  تمام پراپرٹی دولہا کے والد کے نام ہے۔دلہا کے والد نے شادی کے وقت الگ سے ایک اسٹام اپنے بیٹے کی طرف سے لکھ کر دیا کہ پانچ کنال زمین وہ بطور حق مہر بیٹے کی دلہن کو دے گا ۔شادی کو تیس سال کا عرصہ ہو چکا ہے سسر فوت ہوچکا ہے،  جب کہ تمام جائیداد وارثان کے نام ہو چکی ہے،  مذکورہ بہو کا حق مہر خاوند نے اپنے حصے سے ادا کر دیا ہے،  مگر بہو نے مقدمہ عدالت میں دائر کر دیا ہے کہ میرا حق مہر میرے سسر نے دینا تھا وہ حق مہر کی زمین میرے نام پہلے ہو اس کے بعد باقی ماندہ زمین ورثاء میں تقسیم ہو ۔شرعی رہنمائی درکار ہے کہ حق مہر خاوند ادا کرے گا یا سسر کی ذمّہ داری ہے؟

جواب

واضح رہے کہ حقِ مہر کی ادائیگی اصلاً تو شوہر پر لازم ہوتی ہے،لیکن اگر شوہر کی طرف سے کوئی دوسرا شخص مہرکی ادائیگی کی ضمانت لے لے تو یہ بھی شرعاً جائز ہے۔

"الدر المختار وحاشية ابن عابدين  ( فتاوی شامی )   میں ہے :

"(قوله: وصح ضمان الولي مهرها) أي سواء ولي الزوج أو الزوجة صغيرين كانا أو كبيرين، أما ضمان ولي الكبير منهما فظاهر لأنه كالأجنبي. ثم إن كان بأمره رجع وإلا لا."

(کتاب النکاح ، باب المہر ، ج : 3 ،  ص : 140 ، ط : سعید)

صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ بہو کے حقِ مہر کی ضمانت لینے کے بعد  چوں کہ سسر نے اپنی زندگی  میں اپنی جائیداد میں سے پانچ کنال زمین متعین کر کے بہو کو بطورِ حقِ مہر دی نہیں تھی ،اور سسر کا انتقال ہو گیا ،اس کے بعد اگر شوہر نے اپنےحصے میں سے بیوی کے حقِ مہر کی زمین ادا کر دی ہے تو ایسی صورت میں بہو ( بیوی ) کا حقِ مہر ادا ہو گیا ہے،لہذا حقِ مہر کی وصولی کے بعد دوبارہ سسر کی جائیداد میں سے بھی مہر کی وصولی کے لیے مقدمہ کرنا غلط و ناجائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"عرف المهر في العناية بأنه "اسم للمال الذي يجب في عقد النكاح على الزوج في مقابلة البضع إما بالتسمية أو بالعقد".

(کتاب النکاح ، باب المہر ، ج : 3 ،  ص : 100 ، ط : سعید)

وفیہ ایضاً:

"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي".

(کتاب الحدود ، باب التعزیر ،ج : 4 ،ص : 61 ،ط : سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101839

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں