بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کی اجازت کے بغیر اس کی بھینس کا دودھ فروخت کرنا


سوال

اگر کوئی آدمی اپنی بھینس کا دودھ گھر لاتا ہے اور اس کی بیوی اپنے شوہر کو بتائے بغیر اس میں سےکچھ فروخت کرتی ہے، اس کا فروخت کرنا اور خریدنے والے کا استعمال کرنا کیسا ہے؟

جواب

اگر شوہر کی طرف سے صراحتًا یا دلالتًا اجازت نہ ہو تو بیوی کے لیے شوہر کے مال  کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔ اور اگر شوہر کی طرف سے دلالتًا اجازت ہو یعنی علم ہونے پر وہ ناراض نہ ہو، اور بیوی بہت سستا بھی فروخت نہ کرے، بلکہ مناسب قیمت پر فروخت کرے، تو گناہ نہیں ہوگا۔

نیز اگر بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر اس کی بھینس کا دودھ بیچ دیتی ہے، تو خریدنے والے کو اگر اس صورتِ حال کا علم نہیں تو اس کے لیے خریدنا جائز ہے، البتہ بیوی کے لیے اس سے حاصل ہونے والی رقم کا استعمال کرنا جائز نہ ہوگا، بلکہ شوہر کو لوٹانا واجب ہوگا۔ اور اگر خریدار بھی اس بات کو جانتا ہو کہ یہ خاتون کی اپنی ملکیت نہیں، تو اس کے لیے خریدنا بھی جائز نہ ہوگا۔

المبسوط للسرخی میں ہے:

"(قال الشيخ الإمام الأجل الزاهد شمس الأئمة السرخسي إملاء:) (اعلم) بأن الاغتصاب أخذ مال الغير بما هو عدوان من الأسباب، واللفظ مستعمل لغة في كل باب مالا كان المأخوذ أو غير مال. يقال: غصبت زوجة فلان وولده، ولكن في الشرع تمام حكم الغصب يختص بكون المأخوذ مالًا متقومًا. ثم هو فعل محرم؛ لأنه عدوان وظلم، وقد تأكدت حرمته في الشرع بالكتاب والسنة.

أما الكتاب فقوله تعالى: {يا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل إلا أن تكون تجارة عن تراض منكم} [النساء: 29] وقال تعالى: {إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلما إنما يأكلون في بطونهم نارا} [النساء: 10] وقال صلى الله عليه وسلم: «لايحل مال امرئ مسلم إلا بطيبة نفس منه» وقال صلى الله عليه وسلم: «سباب المسلم فسق، وقتاله كفر، وحرمة ماله كحرمة نفسه» وقال صلى الله عليه وسلم في خطبته: «ألا إن دماءكم وأعراضكم وأموالكم حرام عليكم كحرمة يومي هذا في شهري هذا في مقامي هذا» (فثبت) أن الفعل عدوان محرم في المال كهو في النفس؛ ولهذا يتعلق به المأثم في الآخرة كما قال صلى الله عليه وسلم: «من غصب شبرًا من أرض طوقه الله تعالى يوم القيامة من سبع أرضين» إلا إن المأثم عند قصد الفاعل مع العلم به.

فأما إذا كان مخطئًا بأن ظن المأخوذ ماله أو كان جاهلًا بأن اشترى عينًا ثم ظهر استحقاقه لم يكن آثمًا لقوله صلى الله عليه وسلم: «رفع عن أمتي الخطأ والنسيان» والمراد المأثم."

(المبسوط للسرخسي، ج:11، ص:49، ط:دار المعرفة - بيروت)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 203):

"(وإن باع) الغاصب (المغصوب فضمنه المالك نفذ بيعه."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200486

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں