میری بیوی کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی ، آپریشن کے بعد وہ تندرست ہو گئی تھی، لیکن بعد میں بیماری بڑھ گئی ، ٹیسٹ وغیرہ سے معلوم ہوا کہ کینسر ہے، میں اپنی بساط کے مطابق جتنا مجھ سے ہو سکا علاج کرواتا رہا ، لیکن میری بیوی میکے چلی گئی ، وہاں سےعلاج کرواتا رہا، میں نے کہاکہ: اگر آپ میرے گھر آجائیں تو ہر صورت میں آپ کا علاج کرواتا رہوں گا ، چاہے حالات کچھ بھی ہوں ، لیکن میرے سسرال والے اور میری بیوی یہی کہتی رہی کہ میں اپنے گھر پر رہوں گی ، حالاں کہ میرے گھر میں اسے ہر قسم کی سہولیات میسر ہیں اور کسی قسم کی تکلیف یاپریشانی نہیں ہے، جس کی وجہ سے اسے یہاں رہنا مشکل ہو ، اس کے باوجود میری بیوی اور اس کے والدین یہ کہتے ہیں کہ علاج یہاں سے ہوگا، اور میری بیوی میری اجازت کے بغیروہ اپنے والدین کے گھر زبردستی بیٹھی ہوئی ہے، اب یہ معاملہ ناراضگی تک پہنچ گیا ہے ۔
اب از روۓ شرع میرے ذمہ میری بیوی کا علاج وغیرہ ہے یا نہیں ؟
صورتِ مسئولہ میں سائل کی بیوی سائل کی اجازت کے بغیر جو عرصہ والدین کے گھر میں گزارے گی اس مدت کے علاج و معالجہ اور نان نفقہ کی وہ حق دار نہیں ہوگی ، سائل پر اس کی ادائیگی لازم نہیں ہے،جب تک سائل کے گھر نہیں آجاتی، اس وقت تک بیوی کے علاج کا خرچہ سائل پر لازم نہیں ہے، تاہم اس کے باوجود شوہر اگر نان نفقہ اور علاج و معالجہ کی رقم ادا کرے تو یہ اس کی طرف سے احسان اور تبرع ہوگا۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"وإن نشزت فلا نفقة لها حتى تعود إلى منزله والناشزة هي الخارجة عن منزل زوجها المانعة نفسها منه."
(کتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، ج:1، ص:545، ط: رشیدیہ)
فتاوی شامی میں ہے:
"لانفقة لأحد عشر ... وخارجة من بیته بغیر حق و هي الناشزة حتی تعود".
(باب النفقة، ج: 3، ص: 575، ط: سعید)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144411101949
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن