بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کی اجازت بغیر گھر سے جانا


سوال

بیو ی بغیر اجازت کے گھر سے چلی جا تی ہے اور بچو ں کو بھی لے کر چلی جا تی ہے تو بیوی اور بچو ں کو اسلامی لحا ظ سے حق ملنا چاہیے کہ نہیں؟

جواب

بیوی کے لیے شوہر کی اجازت کے بغیربلا وجہ گھر سے چلے جانا  جائز نہیں ہے، شرعًا وہ  نافرمان  ہے اور ایسی صورت میں شوہر  اپنی بیوی کے نان نفقہ کا ذمہ دار نہیں ہے، یہاں تک کہ وہ گھر لوٹ آئے، حدیث مبارکہ میں ایسی عورت کے بارے  میں وعید آئی ہے، حدیث شریف میں ہے کہ  ایک خاتون  نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ : شوہر کا بیوی پر کیا حق ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : شوہر کا حق  اس پر یہ ہے کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر اپنے گھر سے نہ نکلے، اگر وہ ایسا کرے گی تو آسمان کے فرشتہ اور رحمت وعذاب کے فرشتے  اس پر لعنت بھیجیں گے یہاں تک کہ وہ لوٹ آئے۔

اسی طرح بیوی پر  بچوں کی پرورش شوہر کے گھر پر لازم ہے اور شوہر پر اپنے بچوں کا نفقہ لازم ہے،بیوی کا خود سے شوہر کی اجازت کے بغیر  بچوں کو  اپنے ساتھ لے جانا جائز نہیں۔

 البتہ شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہفتے میں ایک مرتبہ بیوی کے والدین سے اور سال میں کم از کم ایک مرتبہ اس کے محارم سے اس کی ملاقات کی اجازت دے، خواہ خود لے جاکر ملاقات کرائے یا اپنی اجازت سے بھیجے یا بیوی کے والدین کو اپنے گھر ملاقات کا موقع دے۔ میاں بیوی کا رشتہ قانون سے زیادہ اخلاق سے چلتا اور پائیدار رہتاہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھروالوں (بیوی) کے ساتھ اچھا ہو، اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ تم سب سے زیادہ اچھا (سلوک کرنے والا) ہوں۔

حدیث شریف میں ہے:

"وروي عن ابن عباس رضي الله عنهما أن امرأة من خثعم أتت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله! أخبرني ما حق الزوج على الزوجة؟؛ فإني امرأة أيم فإن استطعت وإلا جلست أيماً! قال: فإن حق الزوج على زوجته إن سألها نفسها وهي على ظهر قتب أن لا تمنعه نفسها، ومن حق الزوج على الزوجة أن لا تصوم تطوعاً إلا بإذنه فإن فعلت جاعت وعطشت ولا يقبل منها، ولا تخرج من بيتها إلا بإذنه فإن فعلت لعنتها ملائكة السماء وملائكة الرحمة وملائكة العذاب حتى ترجع، قالت: لا جرم ولا أتزوج أبداً". رواه البزار".

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد،باب حق الزوج علی المرأۃ،ج۴،ص۳۰۶،ط؛مکتبۃ القدسی)

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے۔

"لانفقة لأحد عشر ... وخارجة من بیته بغیر حق و هي الناشزة حتی تعود".

(ردالمحتار علی الدر المختار،باب النفقۃ،ج:3، ص:575، ط:ایچ ایم سعید)

وفیہ ایضاً:

"(و) لها (السفر والخروج من بيت زوجها للحاجة؛ و) لها (زيارة أهلها بلا إذنه ما لم تقبضه) أي المعجل، فلا تخرج إلا لحق لها أو عليها أو لزيارة أبويها كل جمعة مرة أو المحارم كل سنة، ولكونها قابلة أو غاسلة لا فيما عدا ذلك، وإن أذن كانا عاصيين والمعتمد جواز الحمام بلا تزين أشباه وسيجيء في النفقة.

(قوله فلا تخرج إلخ) جواب شرط مقدر: أي فإن قبضته فلا تخرج إلخ، وأفاد به تقييد كلام المتن فإن مقتضاه أنها إن قبضته ليس لها الخروج للحاجة وزيارة أهلها بلا إذنه مع أن لها الخروج وإن لم يأذن في المسائل التي ذكرها الشارح كما هو صريح عبارته في شرحه على الملتقى عن الأشباه."

(باب المہر،ج۳،ص۱۴۵،ط؛سعید)

بدائع الصنائع  فی ترتیب الشرائع میں ہے:

"وأما بيان مكان الحضانة فمكان الحضانة مكان الزوجين إذا كانت الزوجية بينهما قائمة حتى لو أراد الزوج أن يخرج من البلد وأراد أن يأخذ ولده الصغير ممن له الحضانة من النساء له ذلك حتى يستغني عنها لما ذكرنا أنها أحق بالحضانة منه فلا يملك انتزاعه من يدها لما فيه من إبطال حقها فضلا عن الإخراج من البلد وإن أرادت المرأة أن تخرج من المصر الذي هي فيه إلى غيره فللزوج أن يمنعها من الخروج سواء كان معها ولد أو لم يكن؛ لأن عليها المقام في بيت زوجها."

(کتاب الحضانۃ،فصل في بيان مكان الحضانة،ج۴،ص۴۴،ط؛دار الکتب العلمیۃ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد كذا في الجوهرة النيرة."

(الفصل الرابع في نفقة الأولاد،ج۱،ص۵۶۰،ط؛دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102147

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں