بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کی باتیں میکے میں کرنا


سوال

 6  مہینے  قبل میری شادی خالہ کی بیٹی سے ہوئی ہے جو ماشاءاللہ 12 کلاس پڑھی ہوئی ہے۔  میری بیوی ایک تو  مجھے دن کو نزدیک نہیں آنے دیتی اور دوسرا رات کو کبھی میں ہم بستری کرو ں تو منع کرتی ہے۔  اگر میں ہم بستری کرو ں تو وہ میاں بیوی کے پردے  کی باتیں اپنے ماں باپ کو بتاتی ہے جس کی وجہ سے لڑائی فساد برپا ہو جاتا ہے۔  بار بار بتایا ہے کہ تنہائی کی باتیں کسی کو بتانا بڑا سخت گناہ ہے ۔ راہ نمائی فرمائیں اور یہ بھی بتائیں کہ بیوی کے لیے باپ عزیز ہے یا خاوند ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں میاں بیوی کی باتیں باہر کسی سے کرنا بہت سے گناہوں کا مجموعہ ہے جن میں غیبت، بے حیائی، شوہر سے خیانت وغیرہ شامل ہیں۔ یہ عمل ترک کرنا لازم ہے۔ نیز حدیث میں ان لوگوں کے لیے بھی وعید ہیں جو بیوی کی شوہر کے خلاف ذہن سازی کریں؛  لہذا آپ کی بیوی کے گھر والوں کو  اسے  روکنا چاہیے، نہ کہ اس کے اس عمل کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ نیز بیوی کا کسی شرعی وجہ (ایام یا شدید بیماری یا تکلیف وغیرہ) کے بغیر شوہر کو ہم بستری سے منع کرنا بھی جائز نہیں ہے، البتہ شوہر کو بھی چاہیے کہ وہ بیوی کی صحت  اور چاہت وغیرہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے اعتدال سے جسمانی حقوق ادا کرے، جتنا بیوی کی صحت و جسم متحمل ہو۔

بیوی کے  لیے  اس کا باپ اور  خاوند  دونوں عزیز  ہیں،  تاہم حقوق میں شوہر کا حق باپ کے حق پر مقدم ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5 / 2132):

"(وعن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: أربع) : أي: خصال (من أعطيهن) : أي: بإعطاء الله وتوفيقه إياه (فقد أعطي خير الدنيا والآخرة: قلب شاكر) : أي: على النعماء (ولسان ذاكر) أي في السراء والضراء (وبدن على البلاء) : أي: على المحن التكليفية والمصائب الكونية (صابر، وزوجة لاتبغيه) : بفتح التاء ويضم أي لا تطلب له (خونًا) : أي: خيانة (في نفسها ولا ماله) : أي: ولا خيانة في ماله قال تعالى: {يبغونكم الفتنة} [التوبة: 47] أي يطلبون لكم ما تفتنون به، وفي القاموس: بغيته أي طلبته، وأبغاه الشيء طلبه له وأعانه عليه، وفي النهاية: ابغني كذا بهمز الوصل أي اطلب لي، وبهمز القطع أي أعني على الطلب. (رواه البيهقي في شعب الإيمان) : وكذا الطبراني بسند حسن."

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5 / 2131):

"(ولو كنت آمر) : وفي رواية " آمرًا " (أحدا أن يسجد لأحد) : أي: بأمره تعالى (لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها) : مبالغة في وجوب انقيادها."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200972

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں