بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے بارے میں شک کرنے کا حکم


سوال

میرا بس شرعی نکاح ہوا ہے لیکن ہم نے تمام میاں بیوی والی حرکتیں کر لی ہے لیکن مجھے اپنے شوہر پر بہت شک رہتا ہے بہت غصہ آتا ہے کیوں کہ وہ پہلے بہت لڑکیوں سے رابطہ میں تھے،اب میرے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

واضح  رہے  کہ اللہ رب العزت نے نکاح کی برکت سے میاں بیوی کی شکل میں جو رشتہ بطورِ  نعمت عطا فرمایا ہے، اس کا مدار اعتماد اور بھروسے پر  رکھا ہے، زوجین کا رشتہ اور تعلقات خوش گوار   رہنے کے لیے ضروری ہے کہ  دونوں ایک دوسرے پر مکمل اعتماد کریں اور ایک دوسرے کے بارے میں بد گمانی سے بچیں، ایک دوسرے پر شک اور بد گمانی سے ازدواجی زندگی میں بہت بڑا بگاڑ آجاتا ہے، ایک دوسرے کے ظاہری احوال معلوم ہونے پر ہی اکتفا کرنا چاہیے اور آپس میں ایک دوسرے کی ٹوہ میں لگ کر ایک دوسرے کے عیب تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، اور ایسے تمام امور  سے بچنا چاہیے جو شک و شبہ کو جنم دے سکتے ہوں اور باہمی بد اعتمادی کا باعث ہوں،  چناں چہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد کو بغیر بتائے  رات کے وقت   سفر سے گھر  لوٹنے سے بھی اجتناب کا حکم دیا ہے، من جملہ دیگر حکمتوں کے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کسی ایسی بات یا حالت پر مطلع نہ ہو جو اسے ناپسند ہو یا جس سے اعتماد کو ٹھیس  پہنچے،  نیز اللہ رب العزت نے ٹوہ  لگانے اور تجسس سے منع فرمایا ہے،اسی طرح شادی کے بعد میاں بیوی دونوں پر ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے، ا س کے بغیر پرسکون زندگی کاحصول محال ہے، شریعتِ مطہرہ  میں میاں بیوی کے باہمی حقوق کو  بہت اہمیت  کے ساتھ  بیان  کیا گیا ہے اور  دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کے بہت تاکید کی گئی ہے،لہذا سائلہ  کو چاہیے کہ بلاوجہ شک وشبہ میں مبتلا نہ ہوں، شوہر پر اعتماد کردیں، انہیں عزت دیں ، ان کی خدمت وفرماں برداری کریں،  شوہر کا اس طرح دل جیت لیں کہ نہ ان کو کسی اور کا خیال ہو اور نہ ہی آپ کے دل میں وسوسے اور شک آئیں ۔

قرآن کریم میں  ہے:

" یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا." (الحجرات: 12)
"ترجمہ: اے ایمان والو بہت سے گمانوں سے بچا کرو؛ کیوں کہ بعضے گمان گناہ ہوتے ہیں اور سراغ مت لگایا کرو ۔ (بیان القرآن)"

 فتح الباری میں ہے:

"عن جابر قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يطرق الرجل أهله ليلا ‌يتخونهم ‌أو ‌يطلب ‌عثراتهم أخرجه مسلم...قال سفيان لا أدري هذا في الحديث أم لا يعني ‌يتخونهم ‌أو ‌يطلب ‌عثراتهم ثم ساقه مسلم من رواية شعبة عن محارب مقتصرا على المرفوع كرواية البخاري وقوله عثراتهم بفتح المهملة والمثلثة جمع عثرة وهي الزلة ووقع عند أحمد والترمذي في رواية من طريق أخرى عن الشعبي عن جابر بلفظ لا تلجوا على المغيبات فإن الشيطان يجري من بن آدم مجرى الدم... قوله يكره أن يأتي الرجل أهله طروقا في حديث أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم كان لا يطرق أهله ليلا وكان يأتيهم غدوة أو عشية أخرجه مسلم."

(باب لا يطرق أهله ليلا إذا أطال الغيبة مخافة أن يتخونهم أو يلتمس عثراتهم، ج:9، ص:340، ط: المكتبة السلفية - مصر)

مشکاۃ المصابیح  میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: المرأة إذا صلت خمسها وصامت شهرها وأحصنت فرجها وأطاعت بعلها فلتدخل من أي  أبواب الجنة شاءت. رواه أبو نعيم في الحلية".

(‌‌كتاب النكاح، باب عشرة النساء، ج:2، ص:971، ط: المكتب الإسلامي)

ترجمہ:"  حضرت انس  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: جس عورت نے  (اپنی پاکی کے  دنوں میں پابندی کے ساتھ) پانچوں وقت کی نماز پڑھی،  رمضان کے  (ادا اور قضا) رکھے،  اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی  اور اپنے خاوند  کی فرماں برداری کی  تو (اس عورت کے لیے یہ بشارت ہےکہ) وہ جس دروازہ سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔"

(مظاہر حق، ج:3، ص:366، ط: دارالاشاعت)

و فیہ ایضاً:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو كنت آمر أحداً أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها» . رواه الترمذي".

(‌‌كتاب النكاح، باب عشرة النساء، ج:2، ص:972، ط: المكتب الإسلامي)

ترجمہ: "رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اگر میں کسی کو یہ حکم کرسکتا کہ  وہ کسی (غیر اللہ) کو سجدہ کرے تو میں یقیناً عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔"

(مظاہر حق، ج:3، ص:366، ط: دارالاشاعت)

و فیہ ایضاً:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً، وخياركم خياركم لنسائهم» . رواه الترمذي".

(‌‌كتاب النكاح، باب عشرة النساء، ج:2، ص:973، ط: المكتب الإسلامي)

ترجمہ: "رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: مؤمنین میں سے  کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو ان میں سے بہت زیادہ خوش اخلاق ہو،  اور تم  میں بہتر وہ شخص ہے جو  اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے۔"

(مظاہر حق، ج:3، ص:370، ط: دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504102227

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں