بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1445ھ 13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کی عدم موجودگی میں نکاح فسخ کرنا


سوال

 میری بیوی نے میرے خلاف تنسیخِ  نکاح کا دعوٰی کیا ہے ، میرے اوپر دوسری شادی  بغیر اجازت کرنے اور چھ ماہ کا خرچہ نہ دینے کا الزام لگایا ہے  ، عدالت نے ایک نوٹس جاری کرنے کے بعد اخبار  میں اشتہار جاری کرنے کے بعد  مجھے دس مارچ کو عدالت حاضر ہونے کا کہا کیوں کہ میں ملک سے باہر ہوں،میں  کوشش کرنے کے باوجود نہیں پہنچ سکا ،  وکیل کو تاریخ بڑھانے کے لیے بھیجا ، لیکن عدالت کہہ  رہی ہے اب کچھ نہیں ہو سکتا ،  آپ کو مزید ٹائم نہیں مل سکتا جبکہ میں نے 20 تاریخ کی جہاز کی  بکنگ کی سلیپ(رسید)  بھی عدالت کو بھیجی  ہے ،  کیا اس صورت میں طلاق ہو گی،  جبکہ مجھے اپنی بیوی کو راضی کرنے کا   کوئی موقع نہیں دیا گیا   ،رہنمائی فرمائیں۔ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سائل کے بیان کے مطابق اگر کورٹ  واقعی  مذکورہ صورت حال میں یک طرفہ تنسیخ نکاح کا فیصلہ سنائے تو شرعاً وہ نافذ نہیں ہوگا  ،  جیسا کہ سائل کے سوال سے واضح ہوتا ہے کہ یہ  یک طرفہ کاروائی کی گئی ہے  اور یہ کہ بیوی نے شرعی شہادت کے ذریعے شوہر کی نان ونفقہ پر عدم قدرت   اور نہ رخصتی کرنا اورنہ طلاق دینا ثابت کیا ہے،  یعنی بیوی نے تنسیخ کے متعلق تمام شرعی ضوابط کی رعایت نہیں رکھی   ، لہذا اس  کا  کوئی اعتبار نہیں ہوگا ،  ایسی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوئی ، لہذا  سائل کا نکاح  اپنی اہلیہ  سے  بدستور برقرار ہے  ۔

اگر واقعتاً  مذکورہ خاتون  کو   اپنے شوہر سے نان و نفقہ یا دیگر   مسائل  میں تحفظات ہوں تو پہلے بڑوں کی موجودگی میں میاں بیوی آپسی مسائل کو  حتی الوسع حل کرنے کی کوشش کرے  ،لیکن اگر حل نہ ہوسکیں تو پھر  عورت اپنے شوہر کو خلع پر راضی کرے  اور اگر وہ خلع پر بھی راضی نہ ہو تو پھر اگر عورت صبر کرکے اپنا زمانہ عفت میں گزار سکے تو بہتر ورنہ جب گزارہ اور نان  نفقہ کی کوئی صورت ممکن  نہ ہو تو سخت مجبوری (1)  کی صورت میں  فسخِ نکاح کا شرعی طریقہ اختیار کرے ، جو  مندرجہ ذیل ہے  : 

تنسیخِ نکاح کا  شرعی طریقہ یہ ہے کہ:   اہلیہ شوہر کے    حقوق ، نان و نفقہ نہ دینے کی بنیاد پر  تنسیخِ نکاح کا  مقدمہ مسلم  عدالت میں دائر کرے،پھر اپنے نکاح کو شرعی گواہوں سے ثابت کرے ،اس کے بعد شوہر کے حقوق ادا نہ کرنے کو شرعی گواہوں سے ثابت کرے ، پھرقاضی شرعی شہادت کے ذریعہ پوری تحقیق کرے،اگر عورت کا دعوی صحیح ثابت ہو کہ شوہر باوجود وسعت کے حقوق ادا نہیں کررہا تو  جج شوہرکوعدالت میں حاضر ہونے کا نوٹس  جاری کرے  ، اگر شوہر عدالت میں حاضر ہوکر گھر بسانے پر آمادہ  ہوجائے تو ٹھیک،لیکن  اگر وہ عدالت میں حاضر نہ ہو یا حاضر ہو لیکن حقوق کی ادائیگی پر راضی نہ ہو تو عدالت نکاح فسخ کردے، جس کے بعد  عورت اپنی عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے،  واضح رہے کہ تفریق کے لیے عورت کی طرف سے مطالبہ شرط ہے ،اگر عورت   تفریق یعنی جدائی کا مطالبہ ترک کردے تو تفریق نہ کی جائے گی۔ 

(1)مجبوری کی دو صورتیں ہیں :

1۔یہ کہ عورت کے خرچ کا کوئی انتظام نہ ہوسکے یعنی نہ تو کوئی شخص  عورت کے خرچ کا بندوبست کرتا ہواور نہ عورت حفظ آبرو کے ساتھ کسب معاش پر قدرت رکھتی ہو۔

2۔اگر بسہولت یا بمشکل خرچ کا انتظام تو ہوسکتاہے لیکن شوہر سے علیٰحدہ رہنے میں گناہ میں مبتلا ہونے کا قوی اندیشہ ہو۔

بدائع الصنائع   میں ہے:

"(فصل) :وأما حجة المدعي والمدعى عليه فالبينة حجة المدعي واليمين حجة المدعى عليه لقوله - عليه الصلاة والسلام - «‌البينة ‌على ‌المدعي واليمين على المدعى عليه» جعل - عليه الصلاة والسلام - البينة حجة المدعي واليمين حجة المدعى عليه والمعقول كذلك لأن المدعي يدعي أمرا خفيا فيحتاج إلى إظهاره وللبينة قوة الإظهار لأنها كلام من ليس بخصم فجعلت حجة المدعي واليمين."

(كتاب الدعوی، فصل في حجة المدعي والمدعى عليه ج:6، ص:225، ط:دار الکتب العلمیة)

حیلۂ  ناجزۃ میں ہے :

"وأما المتعنت الممتنع عن الإنفاق ففي مجموع الأمير مانصه:إن منعها نفقة الحال فلها نفقة القيام فإن لم يثبت عسره أنفق أو طلق وإلا طلق عليه.قال محشيه قوله:وإلا طلق أي طلق عليه الحاكم من غير تلوم إلي أن قال: وإن تطوع بالنفقة قريب أوأجنبي فقال ابن القاسم لها أن تفارق لأن الفراق قد وجب لها. وقال ابن عبدالرحمن لا مقال لها لأن سبب الفراق هو عدم النفقة قد انتهي وهو الذي تقضيه المدونة كما قال ابن المناصف."

(حیلۂ ناجزہ، فصل فی حکم زوجة المتعنت،ص:73، ط:دارالإشاعت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101249

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں