بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے دوسری شادی کر لینے کی وجہ سے بیوی کے مطالبہ طلاق کا حکم


سوال

 میری شادی میرے پھوپھی زاد لڑکے سے 8 سال قبل ہوئی تھی ، جن سے مجھے ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہے ، میرے شوہر نے میرے ساتھ بہت بڑا دھوکا  کیا ہے، وہ یہ کہ انھوں نے پانچ سال پہلے مجھے بتائے بغیر دوسرا نکاح کرلیا ، وہ مجھے یہ کہہ کر دھوکا دیتے رہے کہ میری نائٹ شفٹ ہے ، پانچ سال سے مجھے شک تھا ، میں نے کئی مرتبہ ان سے پوچھا کہ سچ سچ بتاؤ کیا تم نے دوسرا نکاح کرلیا ہے ؟ ہر بار وہ مجھے ٹالتے رہے جھٹلاتے رہے ، جب میرا شک یقین میں بدل گیا تو میں نے اپنے بھائیوں سے تحقیق کروائی تو وہ بات سچ نکلی ، میرے شوہر نے ان آٹھ سالوں میں مجھے بہت تکلیف پہنچائی بہت سی مرتبہ چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے  لیے بھی مجھے بہت ترسایا،  میں نے گھر بسائے رکھنے کی خاطر ہر طرح کا سمجھوتہ کرلیا، لیکن ان کے دوسرے نکاح والے عمل سے میرا دل بہت ٹوٹا۔

میں اب اس دغا باز شخص کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی ، وہ تو مجھے چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں اور پچھلی تمام کوتاہیوں پر شرمندہ بھی ہیں،  میں نے تو یہ شرط رکھ دی ہے کہ اگر تم میرے ساتھ رہنا چاہتے ہو یا رشتہ برقرار رکھنا چاہتے ہو تو اُس دوسری عورت کو طلاق دے دو ۔ بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ میرا یہ مطالبہ ناجائز ہے؛ اس لیے  مجھے دارالافتاء سے رجوع کرنا پڑا۔

میرا سوال یہ ہے کہ اگر میں اس قسم کی شرط رکھتی ہوں تو کیا میں شرعًا گناہ گار ہوں گی  یا نہیں ؟  میرا اس قسم کی شرط رکھنا اور اس دوسری شادی کی وجہ سے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرنا شرعاً جائز ہوگا یا نہیں؟  براہ کرم میری رہنمائی فرمائیں!

اور مجھے بتائیں کہ مجھے اس سلسلے میں کیا کرنا چاہیے؟ مجھے بالکل برداشت نہیں ہے کہ میرا شوہر دوسرے عورت کو نکاح میں رکھتے ہوئے مجھ سے تعلق رکھے ، براہ کرم شرعی نقطہ نظر سے میری رہنمائی فرمائیں !

جواب

واضح  رہے کہ  شریعتِ مطہرہ نے مرد کو چار تک  شادیاں کرنے کی اجازت دی ہے،بشرط یہ کہ وہ مالی استطاعت رکھتا ہواور جسمانی طور حقوقِ زوجیت ادا کرنے پر قدرت رکھتاہو، مرد ایک سے زائد شادی کرنے میں  بیوی  یا کسی دوسرے شخص کی اجازت کا پابند نہیں، البتہ بہتر یہ ہے کہ دوسری شادی کرتے وقت پہلی بیوی کو اعتماد میں لے لے؛ تاکہ آئندہ کی زندگی پر سکون اور خوش گوار گزرے،او ر دوسری شادی کے بعد ساری توجہ ایک بیوی کی طرف کرنا اور  دوسری بیوی کو تنگ کرنا یہ انتہائی گناہ کا سبب ہے،اور حدیث شریف میں اس پر سخت وعید وارد ہوئی ہے۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من كانت له امرأتان، فمال إلى إحداهما جاء يوم القيامة ‌وشقه ‌مائل."

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ کسی ایک بیوی کی طرف مائل ہو جائے،تو وہ شخص قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک جانب فالج زدہ ہو گی۔"

(باب في القسم بين النساء،ج:3 ،ص:469،ط: الرسالة)

اس ليے شوہر پر لازم ہے كہ اختياری امور ( نان نفقہ،شب باشی ،اور وقت  کی تقسیم وغیرہ )میں مساوات کا خیال رکھے۔

  نیز   آپ کے شوہر کا آپ کی اطلاع کے بغیر دوسری شادی کر نا شرعاً  دھوکا  دہی    کے زمرے میں نہیں آتا، اس کی وجہ سے آپ کا شوہر سے ناراضی کا اظہار کرنا،اور اپنی سوکن کی طلاق کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے،البتہ دوسری شادی کے بعد بھی آپ کی ضروریات اور نان نفقہ کا خیال رکھنا شوہر کی شرعی ذمہ داری تھی ، جس میں کوتاہی کرکے وہ گناہ کا مرتکب ہوا ہے،اب جب شوہر اپنی سابقہ  کوتاہیوں پر شرمندہ ہے، اور آپ کو شرعی بیوی کی طرح رکھنا چاہتا ہے،اور آپ کے حقوق ادا کرنے کی ذمہ داری لے رہا ہے، تو اس صورت میں آپ کے لیے اپنی سوکن کی طلاق کا مطالبہ کرنا ،اور    اپنے ساتھ رشتہ زوجیت برقرار رکھنے کے لیے پہلی بیوی کی طلاق کو شرط قرار دینا شرعاً ناجائز ہے،اس کی وجہ سے آپ گناہ گار  ہوں گی۔

حدیث شریف میں ہے:

 "حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کسی عورت کے لیے اپنی مسلمان بہن (یعنی سوکن) کی طلاق کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے تاکہ اس کا حصہ بھی اس کو مل جائے حالانکہ اس کو وہی ملے گا جو اس کا حصہ ہے۔"

نیز  ازدواجی زندگی کے  پرسکون اور خوش گوار  ہونے کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں ،  نبی کریم ﷺ نے شوہرکو اپنی اہلیہ کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد نبوی ہے:

"تم میں سے بہترین   شخص وہ ہے جو اپنی گھر والوں  کے ساتھ اچھا ہے، اور میں اپنی گھر والوں کے ساتھ تم میں سے سب سے بہتر ہوں۔"

دوسری جانب بیوی کو بھی اپنے شوہر کی اطاعت اور فرماں برداری کا حکم دیا ، ارشاد نبوی ہے:

"  بالفرض اگر میں کسی کو  اللہ کے سواکسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی کو حکم دیتا  کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔"

         سنن أبی داود  میں ہے:

"عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: أبغض الحلال إلى الله تعالى الطلاق."

(كتاب الطلاق، باب في كراهية الطلاق، ج:2، ص:255، ط: المكتبة العصرية۔ بيروت)

وفیہ ایضاً:

"عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أيما امرأة سألت زوجها طلاقاً في غير ما بأس، فحرام عليها رائحة الجنة."

(باب في الخلع، ج:2، ص:268، ط: المكتبة العصرية۔ بيروت)

الطبقات الکبری میں ہے:

"عن عبد الله بن شدّاد أنّ النبيّ، صلى الله عليه وسلم، قال: ‌خَيركم ‌خيركم ‌لأهله وأنا خيركم لأهلى."

(ذكر ضرب النساء،ج: 10،ص:194،ط: الخانجي)

مصنف عبد الرزاق میں ہے:

"عن معمر، عن أيوب، عن عوف بن القاسم، أو القاسم بن عوف، أن معاذ بن جبل لما قدم الشام رأى النصارى تسجد لبطارقتها، وأساقفتها، فلما قدم قال للنبي صلى الله عليه وسلم: إني رأيت النصارى تسجد لبطارقتها، وأساقفتها، وأنت كنت أحق أن نسجد لك، فقال: "لو كنت آمرا شيئا أن يسجد لشيء دون الله، ‌لأمرت المرأة ‌أن ‌تسجد لزوجها، ولن تؤدي امرأة حق زوجها، حتى لو سألها نفسها وهي على قتب لم تمنعه نفسها."

(حق الرجل علي امراته، ج: 10،ص:326، ط : دار التأصيل)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144411100592

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں