بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے ظلم کرنے کی وجہ فسخ نکاح یا طلاق معلق واقع کرنے کا حکم اورطلاق کی صورت میں مہر اور بچوں کی پرورش کا حکم


سوال

میری شادی کو دس سال ہو گئے ،اول دن سے شوہر نے مجھے خوف و ہراس میں رکھا اور ہمیشہ طلاق کی دھمکیاں دیتے تھے ،بہت تنگ کرتے ہیں اور گالم گلوچ کرتے ہیں ،یہاں تک کہ میں نفسیاتی مریضہ ہو گئی ہوں ،اب ایک ماہ سے میں اپنے والدین کے گھر آئی ہوئی ہوں ،میرے دو بچے ہیں ،ایک بیٹی تقریباً آٹھ سال  کی ہے اور بیٹے کی عمر ڈھائی سال ہے،وہ مجھے ایک طلاق رجعی دے چکے ہیں اور اس کے بعد رجوع بھی کر لیا تھا اور طلاق کو معلق کیا ہے ،الفاظ یہ تھے کہ "اگر تم نے یہ بات بھائیوں کو سچ سچ بتا دی تو تمہیں طلاق ہے"۔دس سال میں نے تشدد،ظلم،مارپیٹ کو برداشت  کیا ،اور شادی کے دو سال بعد وہ ازدواجی کے حق ادائیگی سے عاجز ہو گئے تھے ،پھر کچھ عرصہ بعد درست ہو گئے تھے لیکن اب پھر سے وہ اس کے بیمار ہیں ۔اس ساری صورت حال کے بعد شریعت  مجھے  کیا کہتی ہے ؟کیا میں عدالت سے فسخ نکاح کرا سکتی ہوں ،اگر میں وہ بات جس سے شوہر نے طلاق کو معلق کیا میں بھائیوں کو بتادوں  تو کیا طلاق ہو جائے گی ؟اور طلاق کی صورت میں مہر  اور بچوں کا کیا ہوگا ؟اس طلاق معلق کے ہو تے ہوئے خلع لیا جائے یا طلاق معلق پر عمل کیا جائے ؟بچوں کی پرورش کا حق کس کو ہوگا ؟

جواب

1)صورت مسئولہ میں چونکہ سائلہ کے  شوہر نے ایک طلاق کو سائلہ کے فعل پر معلق کیا ہوا ہے کہ :"اگر تم نے یہ بات بھائیوں کو سچ سچ بتا دی تو تمہیں طلاق ہے "اس لیے اس صورت میں اگر سائلہ کا اپنے شوہر سے نباہ ممکن نہ ہو تو سائلہ کو چاہیے کہ شوہر سے علیحدہ رہتے ہوئے ہی اپنے  بھائیوں کو وہ بات بتا کر اپنے اوپر  دوسری طلاق بھی واقع کرلے  ،اس صورت میں اگر سائلہ دوبارہ ساتھ رہنا نہیں چاہتی تو سائلہ کو چاہیے کہ اپنی عدت گزرنے تک اپنے شوہر کو اس طلاق کا نہ بتائے تا کہ شوہر  سائلہ کی عدت میں  رجوع نہ کر سکے ۔عدت گزرنے کے بعد سائلہ  کا نکاح ختم ہو جائے گا اور سائلہ پر طلاق بائن واقع ہو جائے گی اس کے بعد سائلہ دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہو گی۔ 

کفایۃ المفتی میں مفتی کفایت اللہ صاحب نے ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے:

"اگر شوہر کے مظالم ناقابل برداشت ہوں اور وہ طلاق بھی نہ دےاور عورت کی عصمت خراب ہونے کا اندیشہ ہو تو عورت  کسی مسلمان حاکم کی عدالت سے اپنا نکاح فسخ کراسکتی ہے اور بعد حصول فسخ و انقضائے عدت دوسرا نکاح کرسکتی ہے۔"

(زوج کا ظلم اور بدسلوکی،6/ 151،ط:دار الاشاعت) 

2)        صورت مسئولہ میں اگر سائلہ وہ بات اپنے بھائیوں کو بتا دے جس پر سائلہ کے شوہر نے طلاق کو معلق کیا تھا   تو سائلہ پر دوسری طلاق رجعی واقع ہو جائے گی ۔طلاق کی صورت میں اگر سائلہ کے شوہر نے اب تک مہر ادا نہ کیا ہو تو اس  پر طے شدہ حقِ مہر کی ادائیگی لازم ہے۔

یہ حقِ مہر سائلہ کے شوہر پرقرض ہے ، ادا نہ کرنے کی صورت  میں سائلہ کا شوہر  گناہ گار ہوگا، اگر بغیر ادا کیے انتقال ہوگیا تو اس کے مال سے  پہلے یہ مہر کی رقم ادا کی جائے گی، اس کے بعد باقی بچ جانے ولامال ورثاء میں تقسیم ہوگا، اگر مال نہ ہوا تو یہ مہر ذمہ پر رہ جائے گا جس کی آخرت میں پوچھ ہوگی اور پھر وہاں نیکیوں کی صورت میں ادا کرنا ہوگا۔

واضح رہے کہ  میاں بیوی کی جدائیگی  کی صورت میں لڑکوں کی سات سال کی عمر تک اور لڑکیوں کی نو سال کی عمر تک ماں کے لیے بچوں کو اپنی پرورش میں رکھنے کا حق حاصل  ہوتا ہے،اور خرچہ باپ کے ذمہ ہو تا  ہے، بشرط یہ  کہ ماں  بچوں کے ذی رحم محرم  کے علاوہ کسی اوراجنبی شخص سے شادی نہ کرے اگر ماں بچوں کے  ذی رحم محرم کے علاوہ کسی سے شادی کرلےتو پرورش کا حق  ماں سے ساقط ہو جاتا ہےاور نانی کوحقِ پرورش حاصل ہوجاتا ہے اگر نانی زندہ ہو۔  اور اگر نانی زندہ نہیں ، تو پھر دادی کوحقِ پرورش حاصل ہوجاتا ہے ، لڑکوں کی  سات سال کی عمر کے بعد اور لڑکیوں کی نو سال کی عمر کے بعد   پرورش کا حق دار ان کا والد ہو تا ہے ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر  سائلہ پر طلاق واقع ہو جاتی اور سائلہ اپنے شوہر سے جدا ہو جاتی ہے تو سائلہ کو اپنی بیٹی کی نو سال کی عمر  تک اور بیٹے کی سات سال کی عمر تک پرورش کا حق حاصل ہوگا اور خرچہ سائلہ کے شوہر کے ذمہ ہو گا، بشرطیکہ سائلہ اپنے بچوں کے ذی رحم محرم  کے علاوہ کسی اور سے شادی نہ کرے ، اور  جب بیٹی کی عمر نو سال اور بیٹے کی عمر سات سال ہو جائے گی تو پھر اس کے بعد پرورش کا حق سائلہ کے شوہر کو حاصل  ہوگا۔

3)   طلاق یا خلع سے پہلے دونوں خاندان کے بڑے آپس میں بیٹھ کر دونوں فریق کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کریں اور ایک کابین نامہ  تیار کیا جائے جس میں یہ لکھوایا جائے کہ  شوہر آئندہ  بیوی پر تشدد نہیں کرے گا  اور حقوق ادا کرے گا  اگر   آئندہ ظلم و تشدّد  کیا توبیوی کو اپنے اوپر طلاق واقع کرنے کا حق ہو گا  اگر دونوں فریق  اس طرح صلح کرنے پر رضامند نہ ہوں تو پھر سائلہ کو چاہیے کہ جزء نمبر ایک  میں مذکور طریقہ کے مطابق اپنے اوپر طلاقِ معلّق واقع کرلے ۔ 

بدائع الصنائع میں ہے:

"فان طلقھا ولم یراجعھا بل ترکھا حتی انقضت عدتھا بانت وھذا عندنا"۔

(کتاب الطلاق،فصل في بيان حكم الطلاق، ج: 3،ص: 180،ط:دار الکتب العلمیۃ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراء من صاحب الحق"۔

(کتاب النکاح،الباب السابع في المهر ،الفصل الثاني فيما يتأكد به المهر والمتعة،ج:1،ص:303،ط:رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

 "(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء و قدر بسبع و به يفتى؛ لأنه الغالب".

(کتاب الطلاق،باب الحضانۃ،ج:3،ص:566، ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وبعدما استغنى الغلام وبلغت الجارية فالعصبة أولى يقدم الأقرب فالأقرب، كذا في فتاوى قاضي خان".

 (کتاب الطلاق،باب الحضانۃ،ج:1،ص: 542/ ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100263

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں