بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے قادیانی ہوجانے کی صورت میں نکاح کا حکم


سوال

میرے شوہر دو سال پہلے قادیانی ہو گئے تھے ، جس کا مجھے ابھی ایک سال پہلے پتہ چلا ، اس کے بعد میں نے شوہر سے لاتعلقی کر لی تھی،  لیکن ابھی کچھ مجبوری کی وجہ سے میں نے پھر ہر  قسم کا تعلق قائم کر لیا ہے، مجھے بتائیں کہ میرا ان سے نکاح ہے  یا ختم ہوگیا ہے؟ اور مجھے کیا کرنا چاہیے ؛ کیوں  کہ میرا شوہر   فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے نکاح کی مثال دے کر بول رہا ہے کہ ہمارا نکاح ہے، لہذا آپ شرعی  راہ نمائی فرمادیں۔ 

وضاحت : شوہر  ابھی بھی قادیانی ہے۔

جواب

واضح رہے کہ قادیانی نبی آخر الزماں محمد  مصطفی احمد مجتبی  صلی اللہ علیہ وسلم کی ختمِ نبوت  کے منکر ہونے کی وجہ سے دائرۂ  اسلام سے خارج ہوکر کافر  ، مرتد اور  زندیق ہیں،یہ  کفریہ عقائد رکھنے کے باوجود      دجل و فریب کرتے ہوئے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں ،اور مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں ،اور اپنے مذہب کو اسلام کا لیبل لگاکر فروغ دیتے ہیں  اور اپنے کفریہ عقائد کو باطل تاویلات کے ذریعہ اسلام باور کراتے ہیں ، ایسے شخص کو شریعت کی اصطلاح میں "زندیق" کہتے ہیں، زندیق کا کفر انتہائی درجہ کا کفر ہے، لہذا قادیانی   شریعت اور آئین   و قانون کی رو سے   بدترین کافر، زندیق اور مرتد ہیں،   قادیانیوں سے خرید و فروخت، تجارت، لین دین، سلام کلام، ملنا جلنا، کھانا پینا، ان سے نكاح  يا ان كي خوشي و غمی میں شرکت وغیرہ سب شریعتِ مطہرہ کی رو سے سخت ممنوع اور حرام ہے، اور قادیانیوں کا مکمل بائیکاٹ ان کو توبہ کرانے اور ان کی اصلاح اور ہدایت کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،  اور یہ  ہر مسلمان کا  ایمانی فریضہ  اور رسول اللہ  صلی اللہ  علیہ وسلم سے محبت کی نشانی ہے ۔

صورتِ مسئولہ میں ذکر کردہ تفصیل اگر واقعہ کے مطابق اور درست ہے  کہ سائلہ کے شوہر نے    قادیانی عقائد کو تسلیم کرلیا تھا اور قادیانی ہوگیا تھا تو ایسی صورت میں  سائلہ کا  نکاح اس سے اسی وقت ختم ہوگیاتھا ،سائلہ کے لیےمعلوم ہونے کے بعد  اس کے ساتھ رہنا ناجائز اور حرام تھا،  اور جو تعلق قائم  ہوا وہ بدکاری تھا، اس پر توبہ واستغفار کرنا ضروری ہے، اور اگر ابھی بھی ساتھ رہ رہے ہیں تو فوری طور پر  عليحد گي  اختياركرنا لازم ہے۔

 البتہ اگر  سائلہ کا (سابقہ) شوہر  قادیانی عقائد سے مکمل  براءت کا اظہار کرکے توبہ  کرلیتا ہے، اور صدقِ دل سے دوبارہ اسلام قبول کرلیتا ہے تو   اس کے بعد  باہمی رضامندی سے   شرعی گواہان کے رو برو،  نئے مہر کے ساتھ از سرِ نو ایجاب قبول کرکے ساتھ رہنا جائز ہوگا۔

نوٹ:  باقی شوہر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی کیا مثال دے رہا ہے،وہ واضح نہیں ہے، لہذا اس کی تفصیل لکھ کر دارالافتاء سے دوبارہ رجوع کریں، باقی نکاح بہرصورت باقی نہیں ہے ختم ہوچکا ہے، الگ ہونا لازم ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا) يصلح (أن ينكح مرتد أو مرتدة أحدا) من الناس مطلقا."

(3/200،  باب نکاح الکافر، ط: سعید)

وفيہ أیضاً:

"وفي شرح الوهبانية للشرنبلالي: ما يكون كفرا اتفاقا يبطل العمل والنكاح وأولاده أولاد زنا، وما فيه خلاف يؤمر بالاستغفار والتوبة وتجديد النكاح."

(4 / 246،باب المرتد، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100222

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں