ایک عورت اپنے خاوند سے طلاق لینا چاہتی ہے، لیکن اس کا خاوند اس کو طلاق نہیں دینا چاہتا ،وہ اس کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے،کیا عورت عدالت سے رجوع کر کے طلاق لے سکتی ہے ؟کیا جج کو طلاق دینے کی اجازت ہے؟
طلاق کا اختیار اللہ تعالی نے اپنی حکمت ِ بالغہ کے تحت صرف مرد کو دیا ہے، جج یا کوئی بھی دوسرا شخص شوہر کی اجازت و وکالت کے بغیر عورت کو طلاق نہیں دے سکتے ،عام طور پر جو عدالت سے رجوع کر کے خلع کی ڈگری حاصل کی جاتی ہے، اس میں بھی شوہر کی رضامندی کا پایا جاناضروری ہے،شوہر کی رضامندی کے بغیر یک طرفہ طور پر خلع کی ڈگری حاصل کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی،بلکہ عورت بدستور شوہر کے نکاح میں رہتی ہے۔
نیز عورت کے لیے کسی معقول عذر اور شدید مجبوری کے بغیر خاوند سے طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنا سخت گناہ کی بات ہے،حدیث شریف میں ہے:جو عورت بغیر مجبوری کے اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرے اس پر جنت کی بو حرام ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے :
"وأما ركنه(الخلع) فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."
(کتاب الطلاق ، فصل في شرائط ركن الطلاق وبعضها يرجع إلى المرأة ،(3/ 145) ط : دارالکتب العلمیۃ)
ہندیہ میں ہے :
"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية."
(کتاب الطلاق ، باب في الخلع وما في حكمه،فصل فی شرائط الخلع،488/1،)
سنن أبی داود میں ہے:
"عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أيما امرأة سألت زوجها طلاقاً في غير ما بأس، فحرام عليها رائحة الجنة."
(باب في الخلع، ج:2، ص:268، ط: المكتبة العصرية۔ بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144501101578
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن