بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے مارنے پیٹنے کی وجہ سے بیوی خلع لے کر علیحدہ ہوسکتی ہے؟


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ:

1۔ میرے شوہر نے دوسری شادی کی ہے، نان نفقہ دیتا ہے، لیکن وہ مجھے بہت زیادہ مارتا پیٹتا ہے، ایک مرتبہ اس قدر مارا پیٹا کہ ہسپتال جانا پڑا، اور گھر سے باہر نکلنے نہیں دیتا، کسی بھی رشتہ دار کے ہاں جانے نہیں دیتا، کیا میں شوہر سے خلع کرسکتی ہوں؟ وہ خلع دینے پر راضی نہیں، اس کے لیے کیا طریقۂ کار اختیار کروں؟

2۔ مجھے میرے والدین کے میراث میں سے دس لاکھ روپے ملے، شوہر نے مجھ سے یہ کہہ کر یہ رقم لی کہ گھر لیں گے، پھر اس نے اپنے لیے اس رقم سے گاڑی خرید لی، پھر وہ گاڑی چوری ہوگئی، ڈیڑھ دو لاکھ روپے خرچ کرنے پر وہ گاڑی مل گئی، گاڑی کی حالت بری تھی، وہ بیچی تو ساڑھے پانچ  یا چھ لاکھ میں بکی، یہ رقم اس نے اپنے اوپر خرچ کیے، کہتا ہے کہ میں نے مفتیوں سے معلوم کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ آپ کے ذمہ دینا لازم نہیں، تاہم اس نے 3 لاکھ روپے دے دیئے ہیں، باقی کے بارے میں کہہ رہا ہے کہ میں دینے کے حق میں نہیں ہوں، لیکن اپنی مرضی سے تھوڑے تھوڑے دوں گا، میرا مطالبہ یہ ہے کہ مجھے فوری طور پر چاہیئیں، کیا میں ابھی مطالبہ کرسکتی ہے یا نہیں؟

3۔ میرے جہیز (واشنگ مشین اور فرنیچر) کو اس نے میری اجازت سے بیچا، لیکن اس نے اس کی رقم میری اجازت کے بغیر  خود استعمال کرلی، کیا اس کی رقم کا میں مطالبہ کرسکتی ہوں؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ  نے میاں بیوی دونوں پر ایک دوسرے کے حقوق لازم کیے ہیں، اور دونوں پر لازم ہے کہ بقدر استطاعت  ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت کریں یعنی  جس طرح بیوی پر شوہر کے حقوق کی ادائیگی کرنا لازم ہے، اسی طرح شوہر پر بیوی کا نان نفقہ اور دیگر حقوق لازم کیے ہیں،    چناں چہ  قرآن و حدیث میں عورتوں کے حقوق بڑی اہمیت کے  ساتھ  بیان کیے گئے ہیں ، شوہر پر  عورت کے حقوق ادا کرنا بھی بہت ضروری ہے۔

نیز  جہاں شریعت نے ایک سے زائد  شادیوں کی اجازت ہے تو شریعت نے شوہر کو بیویوں کےدرمیان شب باشی، رہائش، لباس پوشاک، کھانے پینے، نان و نفقہ  غرض سب چیزوں میں برابری کرنے کا بھی پابند کیا ہے، کسی ایک بیوی کی طرف مکمل میلان اور دوسری بیوی کو مکمل نظر انداز کرنے سے منع کیا ہے، اور ایسا کرنے والے شوہر کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے  ارشاد فرمایا ہے کہ : بیویوں کےدرمیان برابری نہ کرنے والا شخص روزِ قیامت اس حال آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ مفلوج ہوگا، لہٰذا شوہر کو بھی اپنا طرز عمل تبدیل کرنا لازم ہو گا ۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  شوہر پر لازم ہے کہ اپنی بیوی کےساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئے  اوردونوں بیویوں میں برابری کرے اور  زوجین کو چاہیے کہ اپنے باہمی حقوق ،   آپس کی نا اتفاقیوں اور رنجشوں کو خود یا  خاندان کےبڑوں کےذریعہ حل کرنے کی کوشش کریں، تاکہ دونوں  دوبارہ سےاپنا گھر بسا سکیں اور شوہر کو سمجھایا جائے کہ وہ اپنے ظلم سے باز آئے،  لیکن  پھر بھی شوہر ظلم سے باز نہ آئے اور زوجین کےمزاج  و طبیعت  ایک دوسرے سے نہ  ملتے ہوں،تمام تر کوشش کے باوجود نباہ کی کوئی صورت نہ بن رہی ہو تو بیوی شوہر کے ظلم کرنے کی وجہ سے طلاق کا مطالبہ یا خلع لے سکتی ہے، لیکن اگر شوہر طلاق یا خلع دینے پر  آمادہ نہیں ہے تو  پھر عورت بامرِ مجبوری کسی مسلمان جج کی عدالت میں شوہر  کے ظلم کرنے کی بنیاد پر فسخِ نکاح کامقدمہ دائر کرے ، جس کا طریقۂ کار یہ ہے  کہ عورت سب سے پہلے عدالت میں شرعی گواہوں کے ذریعہ اپنے نکاح کو ثابت کرے ، اس  کے بعد شوہر کےظلم کرنے کو دو شرعی گواہوں کےذریعہ ثابت کرے، اگر عورت اس دعوے کو دو شرعی گواہوں سے ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئی، تو  عدالت شوہر کو حاضر ہونے کا حکم دے، اگر شوہر حاضر نہ ہو یا حاضر ہو اور ظلم سے باز نہ آئے، تو قاضی ان دونوں کے نکاح کو فسخ کردے، اس کے بعد عورت عدت  (تین ماہواری اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو     بچے کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔

2۔شوہر نے بیوی سے دس لاکھ روپے مانگے تھے تو یہ شوہر کے ذمہ قرض شمار ہوں گے، جس کی ادائیگی کرنا شوہر پر لازم ہے، لہٰذا بیوی کا فوری مطالبہ کرنا درست ہے۔ 

3۔بیوی کی اجازت سے شوہر نے بیوی کی جو چیزیں فروخت کی تھیں  وہ بھی ادا کرنا شوہر پر لازم ہے، چاہے تو وہ چیزیں ادا کرے یا اس کی قیمت ادا کرے۔

 قرآن کریم میں ہے:

فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلاَّ تَعُولُوا[الآية:3]

ترجمہ:”پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھو گے تو پھر ایک ہی (بی بی پر بس کرو) یا جو لونڈی تمھاری ملک میں ہو (وہی سہی) اس (امرمذکور) میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب تر ہے ۔“(بیان القرآن)

سنن ترمذی میں ہے:

1141 - ”حدثنا محمد بن بشار قال: حدثنا عبد الرحمن بن مهدي قال: حدثنا همام، عن قتادة، عن النضر بن أنس، عن بشير بن نهيك، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا كان عند الرجل امرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة ‌وشقه ‌ساقط“

ترجمہ: ”حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان کے درمیان برابری نہ کرے تو وہ قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ ساقط اور مفلوج ہوگا۔“

(أبواب النكاح، ‌‌باب ما جاء في التسوية بين الضرائر، ج:3، ص:439، ط: مصطفى البابي الحلبي)

قرآن کریم میں ہے:

‌وَعاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئاً وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْراً كَثِيراً[الآية:19]

ترجمہ:” اور ان کے ساتھ اچھی طرح رہو سہو اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور خدا اس میں بہت سی بھلائی پیدا کردے“۔

سنن ترمذی میں ہے:

 

3895 - "حدثنا محمد بن يحيى قال: حدثنا محمد بن يوسف قال: حدثنا سفيان، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خيركم ‌خيركم ‌لأهله وأنا خيركم لأهلي، وإذا مات صاحبكم فدعوه".

(أبواب المناقب، ‌‌باب في فضل أزواج النبي صلى الله عليه وسلم، ج:5، ص:709، ط: مصطفى البابي الحلبي)

تفسیر قرطبی میں ہے:

"السادسة- قوله تعالى: (‌وعاشروهن بالمعروف) أي على ما أمر الله به من حسن المعاشرة. والخطاب للجميع، إذ لكل أحد عشرة، زوجا كان أو وليا، ولكن المراد بهذا الأمر في الأغلب الأزواج، وهو مثل قوله تعالى: (فإمساك «1» بمعروف) وذلك توفية حقها من المهر والنفقة، وألا يعبس في وجهها بغير ذنب، وأن يكون منطلقا في القول لا فظا ولا غليظا ولا مظهرا ميلا إلى غيرها".

(سورة النساء، الآية: 19، ج:5، ص:97، ط: دار الكتب المصرية)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الأحکام میں  ہے:

"لو أعطى أحد لآخر نقودا قائلا له: اصرف هذه على مصارفك أو حوائجك أو على الغزاة ولم يذكر بأن ذلك قرض أو هبة وقبض المذكور ذلك فلا يكون هبة بل يكون قرضا لأن هذا اللفظ محتمل القرض والهبة وبما أن القرض أدنى من الهبة فالأولى حمله على القرض".

(الكتاب العاشر، الباب الأول في بيان شركة الملك، خاتمة في حق أحكام القرض والدين وتشمل مباحث عديدة، ج:3، ص:82، ط: دار الجيل)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما حكم القرض فهو ثبوت الملك للمستقرض في المقرض للحال، وثبوت مثله في ذمة المستقرض للمقرض للحال، وهذا جواب ظاهر الرواية".

(كتاب القرض، فصل في حكم القرض، ج:7، ص:397، ط: العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: فلا يلزم تأجيله) أي أنه يصح تأجيله مع كونه غير لازم فللمقرض الرجوع عنه".

(كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، ‌‌فصل في التصرف في المبيع والثمن قبل القبض والزيادة والحط فيهما وتأجيل الديون، ج:5، ص:158، ط: سعيد)

وفیہ أیضاً:

"وفي القهستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا ‌وقع ‌بين ‌الزوجين ‌اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما، فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع".

(كتاب الطلاق، باب الخلع، ج:3، ص:441، ط: سعيد)

فقط والله  أعلم


فتوی نمبر : 144606102272

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں