بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 ذو القعدة 1445ھ 19 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے انتقال کے بعد بیوہ کو اکیلے ہونے کی وجہ سے بچوں کے گھر جاکر عدت گزارنا


سوال

 شوہر کا انتقال جس گھر میں ہوا اب بیوی اس گھر میں اکیلی ہوگئی ہے،  ان کی اولاد دبئی میں ہے،  اب آیا یہ عورت عدت گزارنے اپنے بچوں کے پاس جاسکتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جس عورت کے شوہرانتقال ہوجائے ، اس  پرلازم ہےکہ وہ عدت (چارہ مہینے  دس دن)اسی گھرمیں گزارے جہاں اس کے شوہرکا انتقال ہواتھا، کسی شدید مجبوری اور عذر کی بغیر  عدت کے دوران گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں   مذکورہ خاتون پر شوہر کے گھر میں عدت گزارنا لازم ہے، اگر اکیلے گھر میں رہنے کی  وحشت یا تنہائی  ہوتو اپنے کسی محرم عزیز واقارب کو اپنے گھر ٹھہرالے، اس گھر سے منتقل نہ ہو۔

البتہ اگر  تنہا گھر میں رہنے میں جان، مال ،عزت اور آبرو  کا خطرہ ہو، یا بیماری یا شدید وحشت  کی وجہ سے تنہا رہنے پر قادر نہ ہو، اور کوئی محرم رشتہ دار  کو  ساتھ ٹھہرانے کا انتظام نہ ہوسکتا ہو تو ایسی  صورت  میں  اگر قریب ہی کسی محرم عزیز واقارب کے ہاں عدت گزارنا ممکن ہو تو وہاں عدت گزارلے، شرعی مسافت کے بقدر سفر نہ کرے، اور  اگر یہ  بھی ممکن نہ ہو تو   شدید مجبوری میں اپنے بیٹوں کے پاس کسی محرم کے ساتھ دبئی جاکر ان کے گھر عدت مکمل کرنے کی گنجائش ہوگی، اگر اس درجہ کی شدید مجبوری نہ ہو تو پھر  بیٹوں کے ہاں جاکر عدت گزارنا جائز نہیں ہوگا۔

مجمع الانہر میں ہے:

"(وتعتد المعتدة في منزل يضاف إليها) بالسكنى (وقت) وقوع (الفرقة والموت) لقوله تعالى: {لاتخرجوهن من بيوتهن} [الطلاق:۱] وإضافة البيوت إليهن لاختصاصهن بها من حيث السكنى حتى لو طلقت غائبة عادت إلى منزلها فورًا وتبيت في أي بيت شاءت إلا أن تكون في الدار منازل لغيره فلاتخرج إلى تلك المنازل ولا إلا صحن دار فيها منازل؛ لأنه حينئذ بمنزل له السكة (إلا أن تخرج جبرًا) بأن كان المنزل عاريةً أو مؤجرًا مشاهرًا وأما إن كان مدة طويلة فلاتخرج (أو خافت على مالها) في ذلك المنزل من السارق أو غيره (أو) خافت (انهدام المنزل) وفيه إشعار بأنه إن خافت بالقلب من أمر المبيت خوفًا شديدًا فلها أن تخرج، كما في الخانية."

(كتاب الطلاق، باب العدة، فصل في الإحداد، 1/ 473، ط: دار إحياء التراث العربي)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"ولو كان زوال الخوف بالتحول من منزل إلى منزل كان لها أن تتحول."

(كتاب الطلاق، باب العدة، وخروج المرأة من بيتها، 6/ 34، ط: دارالمعرفة،بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه".

( كتاب الطلاق، باب العدة، 336/3، ط: قديمي)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144509101956

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں