بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے حقوق زوجیت ادا نہ کرنے کی بنا پر عدالت سے خلع یا تنسیخِ نکاح کا حکم


سوال

 (فتوی نمبر 144106200451) یہ میرا مسئلہ تھا جس پر آپ کا فتوی تھا کہ طلاق  لینے کی گنجائش ہے، میرے شوہر نے طلاق دینے سے یکسر انکار کردیا ہے، جس کی وجہ سے عدالت میں خلع کا کیس بھی داخل کردیا ہے،  وہ خلع پر بھی رضامند نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں واپس آجاؤ، اب ٹھیک رہوں گا تمہارے ساتھ، اگر خلع لی تو بدنامی ہوجائے گی وغیرہ،  مجھے اب ان سے بہت ڈر لگتا ہے کہ واپس بلا کر کوئی نقصان نہ پہنچا دیں؛ کیوں کہ ان کے مزاج میں بہت تلخی اور بدلہ لینے کی عادت غالب ہے،  اب اگر کورٹ ان کے رضامند نہ ہونے پر تنسیخِ  نکاح کرتی ہے تو کیا تنسیخِ  نکاح ثابت ہوجائے گا؟  

جواب

واضح رہے کہ  شوہر کے لیے  بیوی کی اجازت کے بغیر چار ماہ سے زیادہ اس سے دور رہنا جائز نہیں ہے، یہ بیوی کی حق تلفی ہے جس پر شوہر گناہ گار ہوگا، اگر کسی وجہ سے شوہر کے لیے نباہ ممکن نہ ہو  اور مسئلہ کے حل کی کوئی صورت نظر نہ آتی ہو اور شوہر اور بیوی کے درمیان ذہنی ہم آہنگی نہیں ہے تو بیوی کے معاملہ کو لٹکانے کے بجائے شوہر   کو ایک طلاق دے کر یا خلع پر رضامندی ظاہر کے  نکاح کو ختم کردینا چاہیے، بیوی کی حق تلفی کرنا اور اس سے نہ رابطہ کرنا، نہ خرچہ دینا اور نہ ہی طلاق پر رضامند ہونا یہ مسلسل اور مستقل گناہ شوہر کے کاندھے پر ہے، اس لیے اس میں اسے مثبت فیصلہ کرنا چاہیے؛ تاکہ آخرت میں اس کا معاملہ بھی کہیں یوں لٹک نہ جائے۔

 ارشادِ  باری تعالیٰ ہے:

{فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ} [البقرة: 229]

ترجمہ: سو اگر تم لوگوں کو یہ احتمال ہو کہ وہ دونوں ضوابطِ خداوندی کو قا ئم نہ کرسکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہ ہوگا اس (مال کے لینے دینے) میں جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑالے۔ (از بیان القرآن)

  باقی جہاں تک  خلع لینے کا تعلق ہے تو خلع  مالی معاملات کی طرح  ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر  مالی معاملات  معتبر ہونے کے لیے جانبین ( عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح خلع  معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین ( میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہوتی  ہے، لہذا خلع کے لیے شوہر کی رضامندی اور اجازت ضروری ہے، نیز طلاق دینا بھی شوہر کا حق ہے،  اگر شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر  بیوی  عدالت سے خلع یا طلاق لے لے اور عدالت اس کے  حق میں یک طرفہ خلع کی  ڈگری جاری کردے تو شرعاً ایسا خلع معتبر نہیں ہوتا، اس سے نکاح ختم نہیں ہوتا، اور ایسی صورت میں عورت کے لیے دوسری جگہ نکاح کرنا بھی جائز نہیں ہوگا۔ ہاں اگر شوہر خلع پر رضامندی ظاہر کردے تو پھر یہ خلع معتبر ہوجاتا ہے۔

لہذا  اب اس صورتِ  حال کے تناظر میں اگر آپ کے شوہر اپنے سابقہ رویہ سے توبہ تائب ہوچکے ہیں  ، اور آئندہ حقوق ادا کرانے  کی یقین دہانی  کراتے ہیں، اور خاندان کے معززین کے سامنے عہد وپیمان کرلیتے ہیں  ، اور نباہ کی صورت بن جاتی ہے تو اپنا گھر بسانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

اور اگر   کسی طور پر بھی نباہ کی صورت نہ بن پائے تو شوہر کو طلاق یا خلع پر راضی کرلینا چاہیے، اگر وہ بغیر عوض کے طلاق نہ دے تو اس کو مال وغیرہ دے کر اس سے خلع کا معاملہ کرنا بھی جائز ہے، اور خاندان کے معزز لوگوں  کو بٹھا کر شوہر سے اس معاملہ کا حل کرانا چاہیے۔

باقی  مذکورہ صورتِ حال  میں عدالت سے یک طرفہ خلع کی ڈگری لے لینے سے آپ کا نکاح ختم نہیں ہوگا جب تک کہ شوہر اس خلع پر راضی نہ ہو،  نیز اگر شوہر گھر بسانے اور نان و نفقہ دینے پر تیار ہو اور چوں کہ وہ نکاح کے بعد ہم بستری بھی کرچکا ہے  تو صرف   اسی مذکورہ بنیاد پر عدالت  کی طرف سے  تنسیخِ  نکاح کی ڈگری سے بھی نکاح ختم نہیں ہوگا۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200282

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں