کیا خاوند اپنی بیوی اور بچوں کا نان نفقہ یہ کہہ کر دینا بند کر سکتا ہے کہ تم نا فرمان عورت ہو؛ اِس لیے تمہارا نان نفقہ میرے ذمے داری نہیں ہے جب کہ خاوند بیوی اور بچوں کو گھر پر چھوڑ کر چلا گیا ہے اور خرچہ نہیں دے رہا، یہ جواز پیش کر رہا ہے اور کہتا ہے بنوری ٹاؤن کا فتویٰ دو، پھر نان نفقہ ملے گا ورنہ میرے ساتھ آ کر رہو، بیوی کا کہنا ہے کہ آپ ہمیں چھوڑ کر کیوں گئے؟ میں تمہارے پاس جا کر نہیں رہوں گی۔ اِس پر خاوند نے نان نفقہ کا مطالبہ نا قابل قبول قرار دیا ہے۔ اور میاں بیوی کی لڑائی میں بیوی نے کہا تھا میرے گھر سے چلے جاؤ تو خاوند جو کہ پہلے سے ارادہ ظاہر کر رہا تھا میں نہیں رہوں گا۔ اُس نے بیوی کے کہتے ہی سامان محفوظ کیا اور گھر سے چلا گیا۔
صورتِ مسئولہ میں شوہر اگر بیوی کو اپنے گھر میں بلانے کا مطالبہ کررہا ہے اور شوہر نے مہر بھی ادا کردیا ہے اور وہاں عورت کی جان وآبرو کو کسی قسم کا خطرہ بھی نہیں ہے، پھر بھی بیوی آکر رہنے پر آمادہ نہیں تو شوہر پراس کا نان ونفقہ لازم نہیں ہے۔
باقی بچوں کا نان نفقہ ہر صورت میں ان کے والد پر لازم ہے۔
"المحیط البرہانی" میں ہے:
''والمعنى في ذلك أن النفقة إنما تجب عوضاً عن الاحتباس في بيت الزوج، فإذا كان الفوات لمعنى من جهة الزوج أمكن أن يجعل ذلك الاحتباس باقياً تقديراً، أما إذا كان الفوات بمعنى من جهة الزوجة لا يمكن أن يجعل ذلك الاحتباس باقياً تقديراً، وبدونه لا يمكن إيجاب النفقة''۔(4/170)
"بدائع الصنائع" میں ہے:
''( فصل ) : وأما شرط وجوب هذه النفقة، فلوجوبها شرطان : أحدهما يعم النوعين جميعاً أعني : نفقة النكاح ونفقة العدة .
والثاني يخص أحدهما وهو نفقة العدة. أما الأول، فتسليم المرأة نفسها إلى الزوج وقت وجوب التسليم ونعني بالتسليم : التخلية، وهي أن تخلي بين نفسها وبين زوجها برفع المانع من وطئها أو الاستمتاع بها حقيقةً إذا كان المانع من قبلها، أو من قبل غير الزوج، فإن لم يوجد التسليم على هذا التفسير وقت وجوب التسليم ؛ فلا نفقة لها. وعلى هذا يخرج مسائل : إذا تزوج بالغةً حرةً صحيحةً سليمةً ونقلها إلى بيته فلها النفقة؛ لوجود سبب الوجوب وشرطه، وكذلك إذا لم ينقلها وهي بحيث لا تمنع نفسها وطلبت النفقة ولم يطالبها بالنقلة فلها النفقة ؛ لأنه وجد سبب الوجوب وهو استحقاق الحبس، وشرطه وهو التسليم على التفسير الذي ذكرنا، فالزوج بترك النقلة ترك حق نفسه مع إمكان الاستيفاء، فلا يبطل حقها في النفقة، فإن طالبها بالنقلة فامتنعت، فإن كان امتناعها بحق بأن امتنعت لاستيفاء مهرها العاجل ، فلها النفقة ؛ لأنه لا يجب عليها التسليم قبل استيفاء العاجل من مهرها ، فلم يوجد منها الامتناع من التسليم وقت وجوب التسليم''۔(8/142)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144108201329
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن