بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ذو القعدة 1445ھ 15 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا شوہر کے بڑے بھائی کو ابو یا ابّا کہنا


سوال

بیوی کا شوہر کے بڑے بھائی کو ابّو یا ابّا کہنا کیسا ہے؟  اُس کا کہنا یہ ہے کہ جب میرے خسر نہیں تو میرے  لیے سب کچھ یہی ہے ؟

جواب

 اردو میں شوہر کے بڑے بھائی کو ”جیٹھ “  کہتے  ہیں، مختلف زبانوں میں اس رشتے کے مختلف نام ہوسکتے ہیں، علاقے، قوم اور خاندانی عرف کے مطابق اس رشتے کا جو بھی نام ہو اسی اعتبار سے اس کو پکارنا چاہیے، ظاہر ہے کہ شوہر کا بڑا بھائی ”والد“ نہیں ہے، اس لیے اس کو "ابا"  یا "ابو "  کہنے سے ان کا رشتہ نہیں بدلے گا، بلکہ وہ جیٹھ ہی رہے گا، البتہ اس  طرح کہنے سے میاں بیوی کے نکاح پر کوئی فرق نہیں  پڑے گا۔

نیز  عورت کے لیے  شوہر کے والد اور شوہر کے بڑے بھائی  کے رشتہ میں بہت فرق ہے، عورت کے لیے شوہر کا والد ”محرم“ ہے، اس سے پردہ  بھی نہیں ہے، اور نہ کبھی اس سے نکاح ہوسکتا ہے، جب کہ شوہر کا بھائی عورت کے لیے "نامحرم" ہے، اس سے پردہ کا حکم ہے،  اور  اس سے  نکاح کی حرمت، عورت کے دوسرے شخص سے نکاح میں ہونے کی وجہ سے ہے، لیکن یہ حرمت  عارضی ہے، بہر صورت ان دونوں رشتوں میں بہت فرق ہے، اس لیے اس فرق کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، تاکہ دیگر احکام کی رعایت بھی ممکن ہوسکے۔

صحيح البخاري (7/ 37):

"باب لايخلون رجل بامرأة إلا ذو محرم، والدخول على المغيبة.

حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، عن يزيد بن أبي حبيب، عن أبي الخير، عن عقبة بن عامر: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إياكم والدخول على النساء» فقال رجل من الأنصار: يا رسول الله، أفرأيت الحمو؟ قال: «الحمو الموت»".

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (20/ 213):

"قوله: (إياكم والدخول) بالنصب على التحذير، وإياكم مفعول بفعل مضمر تقديره: اتقوا أنفسكم أن تدخلوا على النساء، ويتضمن منع مجرد الدخول منع الخلوة بها بالطريق الأولى. قوله: (أفرأيت الحمو) بفتح الحاء المهملة وسكون الميم وبالواو يعني: أخبرني عن دخول الحمو؟ فأجاب صلى الله عليه وسلم: (الحمو الموت) . وقال الترمذي: يقال الحمو أب الزوج، كأنه كره له أن يخلو بها، وفي رواية ابن وهب عند مسلم: وسمعت الليث يقول: الحمو أخو الزوج وما أشبهه من أقارب الزوج ابن العم ونحوه، وقال النووي: المراد من الحمو في الحديث أقارب الزوج غير آبائه وأبنائه لأنهم محارم للزوجة يجوز لهم الخلوة بها، ولايوصفون بالموت. قال: وإنما المراد: الأخ وابن الأخ والعم وابن العم وابن الأخت ونحوهم ممن يحل لها تزوجيه لو لم تكن متزوجة، وجرت العادة بالتساهل فيه، فيخلو الأخ بامرأة أخيه فشبهه بالموت. وقال القاضي: الخلوة بالأحماء مؤدية إلى الهلاك في الدين. وقيل: معناه، احذروا الحمو كما يحذر الموت، فهذا في أب الزوج فكيف في غيره؟ وقال ابن الأعرابي: هي كلمة تقولها العرب كما يقال الأسد الموت، أي لقاؤه مثل الموت، وكما يقال: السلطان نار، ويقال: معناه فليمت ولا يفعل ذلك، وقال القرطبي: معناه أنه يفضي إلى موت الدين أو إلى موتها بطلاقها عند غيرة الزوج، أو برجمها إن زنت معه.

وفي (مجمع الغرائب) : يحتمل أن يراد بالحديث أن المرأة إذا خلت فهي محل الآفة فلايؤمن عليها أحد فليكن حموها الموت، أي: لايجوز أن يدخل عليها أحد إلا الموت، كما قال الآخر: والقبر صهر ضامن، وهذا متجه لائق بكمال الغيرة والحمية".

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 2051):

(قال: الحمو الموت) أي دخوله كالموت مهلك يعني الفتاة منه أكثر لمساهلة الناس في ذلك وهذا على حد الأسد الموت والسلطان النار أي قربهما كالموت والنار أي فالحذر عنه كما يحذر عن الموت. قال أبو عبيد: معناه فليمت ولايفعل ذلك أو معناه خلوة الرجل مع الحمومة يؤدي إلى زناها على وجه الإحصان فيؤدي ذلك إلى الرجم".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200486

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں