بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے ماموں اور چچا سے پردے کا حکم


سوال

شوہر کے ماموں اور چچا سے شریعت میں پردہ کرنے کاحکم ہےیا نہیں؟

جواب

شوہر کے ماموں اور چچا بیوی کے لیے محرم نہیں ہوتے، اس لیے بیوی کے  لیے اپنے شوہر کے ماموں اور چچا سے پردہ کرنا ضروری ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾[ النور:31] 

ترجمہ: ’’اور (اسی طرح) مسلمان عورتوں سے (بھی) کہہ دیجیے کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کے مواقع کو ظاہر نہ کریں ، مگر جس اس (موقع زینت) میں سے (غالباً ) کھلا رہتا ہے (جس کے ہر وقت چھپانے میں حرج ہے) اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھا کریں اور اپنی زینت (کے مواقع مذکورہ) کو (کسی پر) ظاہر نہ ہونے دیں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے (محارم پر یعنی) باپ پر یا اپنے شوہر کے باپ پر یا اپنے بیٹوں پر یا اپنے شوہر کے بیٹوں پر  یا اپنے حقیقی (علاتی یا اخیانی) بھائيوں پر) یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں پر یا اپنی (حقیقی علاتی اور اخیانی) بہنوں کے بیٹوں پر یا اپنی عورتوں پر  یا اپنی لونڈیوں پر یا ان مردوں پر جو طفیلی (کے طور پر رہتے) ہوں اور ان کو ذرا توجہ نہ ہو یا ایسے لڑکوں پر جو عورتوں کے پردوں کی باتوں سے ابھی ناواقف ہیں (مراد غیر مراہق ہیں) اور اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے اور مسلمانو (تم سے جو ان احکام میں کوتاہی ہوگئی ہو تو) سب اللہ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ ‘‘۔ (بیان القرآن) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201111

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں