بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے بلانے پر نماز توڑنے کا حکم


سوال

مرد نے اپنی بیوی کو آواز لگائی  اس حال میں کہ بیوی نماز پڑھ رہی ہے تو بیوی کو نماز توڑنا چاہیے  یا مکمل کرنا چاہیے ؟

جواب

واضح رہے کہ اگر شوہر اپنی بیوی کو آواز لگائے اور بیوی نماز پڑھ رہی ہو تو بیوی کے لیے نماز توڑنے میں یہ تفصیل ہے کہ :

اگر شوہر  بيوى كو اپنى مدد كے ليے بلا رہا ہے كہ وہ آ كر اسے بچائے يا كسى نقصان اور خطرہ كو دور كرنے كے ليے آواز دے رہا ہے تو اس صورت ميں بيوى پر نماز  توڑنى واجب ہو گى،  چاہے وہ نفلى نماز ادا كر رہى ہو يا فرض نماز ،بہر صورت نماز توڑ نا ضروری ہوگا اور یہ حکم صرف بیوی کے لیے نہیں بلکہ ہر اس آدمی کے لیے ہے جو  نماز کی حالت میں کسی کو سنے کہ وہ ہلاک ہورہا ہے یا اس کو کوئی خطرہ ہے تو اسے بچانے کے لیے نماز توڑنا واجب ہے ۔

اور اگر شوہر بیوی کو بغیر کسی ضرورت کے بلا رہا ہے اور اسے معلوم ہے کہ بیوی نماز پڑھ رہی ہے، تو شوہر کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ہے، گناہ گار بھی ہوگا اور عورت کے لیے اس صورت میں  نماز توڑنا شرعاً جائز نہیں ۔

در مختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے :

"ويجب القطع لنحو إنجاء غريق أو حريق. ولو دعاه أحد أبويه في الفرض لا يجيبه إلا أن يستغيث به. وفي النفل إن علم أنه في الصلاة فدعاه لا يجيبه وإلا أجابه.

(قوله: ويجب) أي يفترض (قوله: لايجيبه) ظاهره الحرمة سواء علم أنه في الصلاة أو لا ط.(قوله: إلا أن يستغيث به) أي يطلب منه الغوث والإعانة، وظاهره ولو في أمر غير مهلك واستغاثة غير الأبوين كذلك ط.

والحاصل أن المصلي متى سمع أحدا يستغيث وإن لم يقصده بالنداء، أو كان أجنبيا وإن لم يعلم ما حل به أو علم وكان له قدرة على إغاثته وتخليصه وجب عليه إغاثته وقطع الصلاة فرضا كانت أو غيره (قوله: لايجيبه) عبارة التجنيس عن الطحاوي: لا بأس أن لا يجيبه. قال ح: وهي تقتضي أن الإجابة أفضل تأمل اهـ.قلت: ومقتضاه أن إجابته خارج الصلاة واجبة أيضا بالأولى. والظاهر أن محله إذا تأذى منه بترك الإجابة لكونه عقوقا تأمل.

هذا، وذكر الرحمتي ما معناه أنه لما كان بر الوالدين واجبا وكان مظنة أن يتوهم أنه إذا ناداه أحدهما يكون عليه بأس في عدم إجابته دفع ذلك بقوله: لا بأس ترجيحًا لأمر الله تعالى بعدم قطع العبادة؛ لأن نداءه له مع علمه بأنه في الصلاة معصية، ولا طاعة لمخلوق في معصية الخالق، فلا تجوز إجابته؛ بخلاف ما إذا لم يعلم أنه في الصلاة فإنه يجيبه، لما علم في قصة جريج الراهب، ودعاء أمه عليه، وما ناله من العناء لعدم إجابته لها فليس كلمة لا بأس هنا لخلاف الأولى لأن ذلك غير مطرد فيها، بل قد تأتي بمعنى يجب والظاهر أن هذا منه."

(کتاب الصلاۃ،باب ادراک الفریضۃ،ج:۲،ص:۵۱،۵۲,سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100763

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں