بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کایہ کہناکہ میں اس گھر کا اللہ ہوں اور میں اللہ کا بھی اللہ کا بھی اللہ ہوں


سوال

میری شادی کو 20 سال ہوچکے ہیں،  میری تین بیٹیاں ہیں، دو بیٹیاں جوان ہیں، میرے شوہر شروع سے غصے کے بہت تیز ہیں اور بد اخلاق بھی ہیں، چھوٹی چھوٹی بات پہ ان کو غصہ آجاتا ہے، پہلے مجھے غصے میں بہت مارتے تھے، لیکن اب مارنا کم کیا تو گالیاں بہت دیتے ہیں، گالیاں تو پہلے بھی دیتے تھے، ان کا کہنا ہے کہ اب مارتا نہیں ہوں، تو گالیاں دے کر اپنا غصہ اتارتا ہوں، غصے میں مجھے اور جوان بیٹیوں کو اتنی گندی گندی گالیاں دیتے ہیں کہ ہماری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں، لیکن وہ ہمیں رونے کا حق بھی نہیں دیتے ، کہتے ہیں کہ ابھی مارا نہیں ہے، تو رو کیوں رہی ہو؟ رونے کی ضرورت نہیں ہے، اپنی آواز بند کرو اور ان کے سامنے ہماری کوئی غلطی قابلِ برداشت نہیں ، اگر انجانے میں ہم سے کوئی نقصان ہوجائے، تو وہ بہت شور اور تماشا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دھیان کہاں ہوتا ہے تم لوگوں کا ؟ ہاتھ میں زور نہیں ہے کیا؟ اور اگر ان سے کچھ بے دھیانی میں نقصان ہوجائے، تو اس کا غصہ بھی ہم پر ہی نکالتے ہیں، اس کا الزام بھی ہم پر ڈالتے ہیں اور یہ ہمیشہ ہی ایسا کرتے ہیں۔

اور وہ بولتے ہیں: (نعوذ باللہ) میں پاگل ہوگیا ہوں اور میں اس گھر کا اللہ ہوں اور کبھی بولتے ہیں کہ میں اللہ کا بھی اللہ ہوں (نعوذ باللہ) ، میں جیسا بولوں تم لوگ ویسا ہی کروگے، میری ہر بات مانو گے، میں کہتی ہوں کہ آپ میرے مجازی خدا ہیں، اس گھر کے اللہ نہیں، تو وہ کہتے ہیں: تم جو بولو میں اس گھر کا اللہ ہوں، اگر میں کہوں تو نماز پڑھوگی اور نہ کہوں تو نہیں۔

اور میرے شوہر جاہل نہیں ہیں، وہ خود بھی دین سے واقف ہیں اور کچھ کتب کی کلاس بھی پڑھے ہوئے ہیں، اس کے باوجود بولتے ہیں کہ: میں غلط نہیں ہوں، تم لوگ ہی منہ بند کرکے میری ہر بات مانو گے، میں قیامت تک ایسا ہی رہوں گا، مجھے کوئی نہیں بدل سکتا، کوئی نہیں سدھار سکتا، میں ایسا ہی رہوں گا، میں اپنے شوہر سے بہت پریشان ہوں، میرے ماں باپ اور ساس سسر اس دنیا میں نہیں ہیں، میرے بڑے بھائی  بہن کی یہ عزت نہیں کرتے، اگر وہ میرے مسئلہ میں پوچھنے آتے ہیں، تو ان کے سامنے بھی گالیاں دیتے ہیں اور کسی کو اپنے مسئلہ میں آنے نہیں دیتے اور کہتے ہیں کہ : "اگر کوئی  رشتہ دار میرے گھر کے معاملے میں بولنے آیا، تو میں ان کو دروازے سے ہی ذلیل کرکے بھگا دوں گا،" میں کسی سے مدد بھی نہیں لےسکتی، میرا دل کرتا ہے کہ میں سب کچھ چھوڑ کر کہیں چلی جاؤں،  لیکن میں کہیں چھپ کر جا بھی نہیں سکتی، میری بیٹیوں کو بدنامی کا سامنا کرنا پڑے گا، وہ انتہائی بد اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اتنی تیز آواز میں چیختے اور گالیاں دیتے ہیں کہ پوری گلی میں آواز جاتی ہے، سارے محلہ والے تماشا سنتے ہیں اور یہ ان کا روز کا معاملہ ہوتا ہے، ہر چھوٹی چھوٹی بات پر مثلاً دروازہ کھولنے میں دیر ہوئی، تو دروازے پر لاتیں مارنا شروع کردیتے ہیں، مین گیٹ کی لائٹ نہ جلائی، تو باہر کھڑے کھڑے ہی چیخنا شروع  کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ: "میں کوئی کام بولوں، تو ہوا سے بھی تیز وہ کام کرنا "اور اس کے علاوہ سب کچھ جان کر بھی رزق کی بے حرمتی کرتے ہیں، دسترخوان پر بیٹھ کر گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں اور کھانا اُچھال کر ،کبھی لات مار کر پھینک دیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ چاول کا ایک ایک دانہ چُن کر اُٹھاؤ، میں کچھ بولتی ہوں، تو کہتے ہیں کہ تمہیں کچھ بولنے کا حق نہیں، میرے آگے بحث مت کرنا، منہ بند کرکے بس سنتی رہنا۔

میری بیٹیاں بھی ان سے بہت اُکتا گئی ہیں، اگر اپنی صفائی میں کچھ کہنے آتی ہیں، تو کہتے ہیں تم نے ان کو بگاڑدیا ہے، تم نے ان کو سر پر چڑھا یا، تم ان کی تربیت نہیں کرتی۔

میں بہت پریشان ہوگئی ہوں، سب کچھ میرے برداشت سے باہر ہوگیا ہے، سوچتی ہوں  کہ کبھی لیٹر لکھ کر جماعت والوں کے دفتر میں شکایت کردوں،  کبھی سوچتی ہوں کہ پولیس کی مدد لوں، لیکن بے بس ہوجاتی ہوپھر دل کرتا ہے کہ خودکشی کرلوں، لیکن گناہ اور بیٹیوں کے بارے میں سوچ کر رک جاتی ہوں، میرا کوئی بیٹا نہیں، بس تین بیٹیاں ہی ہیں، اگر میں مرگئی ، تو یہ لوگ بھی مرجائیں گی۔

میرے شوہر میری جوان بیٹیوں کو صرف گالیاں ہی نہیں دیتے بلکہ ان پر ہاتھ بھی اٹھاتے ہیں، گھر میں کوئی مہمان آئے یا ہم کسی کے گھر جائیں، تو ان کا بھی لحاظ نہیں کرتے اور ان کے سامنے بھی گالیاں دینے لگ جاتے ہیں، ان  کو منٹ منٹ میں غصہ آجاتا ہے، ہر وقت بدسلوکی کرتے رہتے ہیں،  اگر ہم غصے میں اونچی آواز میں کچھ کہہ دیں، تو انہیں ہماری ایک بھی بات برداشت نہیں ہوتی، ہماری کوئی بھی غلطی وہ درگزر نہیں کرتے، میرے شوہر میں ذرابھی انصاف نہیں اور ان کو اپنی حرکت پر کوئی شرمندگی نہیں اور فخر سے کہتے ہیں  کہ ہر گھر میں ایسا ہوتا ہے۔

 میرے سارے مسائل اور حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے قرآن و حدیث کی روشنی میں آپ مجھے مشورہ دیں اور میرے مسائل کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟ اور میرے شوہر کے ظالمانہ حرکات پر فتویٰ صادر کریں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائلہ کے شوہر نے (العیاذ باللہ) یہ الفاظ کہے ہیں کہ:"میں اس گھر کا اللہ ہوں اور میں اللہ کا بھی اللہ ہوں ، میں کہوں گا تو تم نماز پڑھوگی ورنہ نہیں" تو اِن الفاظ کی وجہ سے  وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہوچکے ہیں اور اُس کانکاح ٹوٹ چکاہے، اُس پر لازم ہے کہ وہ توبہ تائب ہوکر دوبارہ سے کلمہ پڑھ لے، اوراگر سائلہ اس کے ساتھ رہنے پر راضی ہو تو دوبارہ نکاح کرلےورنہ  عدت گزار کردوسری جگہ نکاح کرناچاہے تو کرسکتی ہے۔اگرسائلہ اس کے ساتھ رہنے پر راضی ہوجاتی ہےتو اس شخص پر لازم ہےکہ اپنے رویہ کی اصلاح کرے، صرف بیوی پر شوہر کے حقوق لازم نہیں ہیں،بلکہ بیوی کے بھی بہت سارے حقوق اللہ تعالٰی نے شوہر کے ذمہ رکھے ہیں، جن کا ادا کرناشوہر کے لیے ضروری ہے، چند حقوق مندرجہ ذیل ہیں:

(1) اپنی حیثیت ووسعت کے موافق بیوی کے نان ونفقہ کے بہتر سے بہتر انتظام کی کوشش کرے۔(2)اس کواس کی جنسی خواہش کی تسکین فراہم کرے۔(3) خادمہ ونوکرانی کے بجائے رفیقہٴ حیات سمجھے۔(4) بلاضرورت سختی وڈانٹ ڈپٹ کا معاملہ نہ کرے۔(5) اس کی جانب سے خلافِ مزاج وخلافِ طبیعت امور پیش آنے پر حتی الامکان صبر سے کام لے۔(6) اس کو دینی احکام، مسائل وآداب سکھاتا رہے اور اس کو شریعت بالخصوص پردہ شرعی وغیرہ کے اہتمام کی تاکید کرتا رہے۔(7) مناسب وقت کے بعد ماں باپ اور دیگر محرم رشتہ داروں سے ملاقات کی اجازت دےدیا کرے۔(8) مارنے ، پیٹنے اور گالم گلوچ  کرنےسے گریز کرے۔

اگر مذکورہ شخص اپنے رویہ کی اصلاح پر راضی نہیں ہوتاتو سائلہ کواختیار ہے کہ وہ عدت کے بعد دوسری جگہ نکاح کرے یااپنے گزر بسر کی کوئی اور صورت  ممکن ہو تواُسے اختیار کرے۔جانبین کے  خاندان کے بڑے اور معززافراد کو اس معاملے کے حل کرنے کوشش کرنی چاہیے۔

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها ما يتعلق بذات الله تعالى وصفاته وغير ذلك) يكفر إذا وصف الله تعالى بما لا يليق به، أو سخر باسم من أسمائه، أو بأمر من أوامره، أو نكر وعده ووعيده، أو جعل له شريكا، أو ولدا، أو زوجة، أو نسبه إلى الجهل، أو العجز، أو النقص."

(كتاب السير، الباب التاسع في أحكام المرتدين، فصل في موجبات الكفر ،258/2، ط: رشيدية)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"وفي الفتح من هزل بلفظ كفر ارتد وإن لم يعتقده للاستخفاف فهو ككفر العناد.قال ابن عابدين: (قوله من هزل بلفظ كفر) أي تكلم به باختياره غير قاصد معناه."

(كتاب الجهاد، باب المرتد، 222/4، ط: سعيد)

فتاوٰی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"خدائی کادعوٰی کفر ہے:

(سوال ٢٧٦) ایک شخص نے مجھ سے تین مرتبہ یہ لفظ کہا کہ میں تیرا خداہوں والعياذ بالله تعالی اس شخص کے متعلق کیا فتوی ہے؟

(الجواب) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :ومن يقل منهم انى اله من دونه فذلك نجزيه جهنم كذلك نجزى الظلمین۔ (ترجمہ) اور جو کوئی ان میں سے یہ کہے کہ میں خدا ہوں اللہ کے سواپس اس کی سز ادوزخ ہے، ہم اسی طرح ظلم کرنے والوں کو سزاد یتے ہیں ، بس اس آیت سے واضح ہے کہ شخص مذکور کا فرو ظالم ہے اگر وہ تو بہ نہ کرے تو اس کے ساتھ کھانا پینا، ملنا جلنا درست نہیں ہے۔"

(کتاب السیر، باب احکام المرتد، 226/12، ط: دارالاشاعت)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(وارتداد أحدهما) أي الزوجين (فسخ) فلا ينقص عددا (عاجل)بلا قضاء (فللموطوءة) ولو حكما (كل مهرها) لتأكده به (ولغيرها نصفه) لو مسمى أو المتعة (لوارتد) وعليه نفقة العدة. قال ابن عابدين: (قوله بلا قضاء) أي بلا توقف على قضاء القاضي، وكذا بلا توقف على مضي عدة في المدخول بها كما في البحر."

(كتاب النكاح، باب نكاح الكافر، 193،194/3، ط: سعید)

 ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

" وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا "(النساء: 19)

"ترجمہ: اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی  کے  ساتھ گزران کرو،  اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو  ممکن ہے  کہ تم ایک شے   کو ناپسند کرو  اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر  کوئی  بڑی منفعت رکھ دے۔"(ازبیان القرآن)

 حدیثِ مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً، وخياركم خياركم لنسائهم . رواه الترمذي."

(مشکاة المصابیح، 2/282، باب عشرة النساء، ط: قدیمي)

ترجمہ:"رسولِ کریم ﷺ نے  فرمایا: مؤمنین میں سے  کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو ان میں سے بہت زیادہ خوش اخلاق ہو،  اور تم  میں بہتر وہ شخص ہے جو  اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے"۔

(مظاہر حق، 3/370، ط:  دارالاشاعت)

ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي."

(مشکاة المصابیح، 2/281، باب عشرة النساء، ط: قدیمي)

ترجمہ:"رسولِ کریم ﷺ نے فر مایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے  اہل کے حق میں تم میں  بہترین ہوں"۔

(مظاہر حق، 3/365، ط:  دارالاشاعت)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"المعاشرة بالمعروف من كف الأذى وإيفاء الحقوق وحسن المعاملة: وهو أمر مندوب إليه، لقوله تعالى:  "وعاشروهن بالمعروف "ولقوله صلّى الله عليه وسلم: "خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي"   وقوله:"استوصوا بالنساء خيراً"والمرأة أيضاً مندوبة إلى المعاشرة الجميلة مع زوجها بالإحسان، واللطف في الكلام، والقول المعروف الذي يطيب به نفس الزوج.ومن العشرة بالمعروف: بذل الحق من غير مطل، لقوله صلّى الله عليه وسلم: "مَطْل الغني ظلم".ومن العشرة الطيبة: ألا يجمع بين امرأتين في مسكن إلا برضاهما؛ لأنه ليس من العشرة بالمعروف، ولأنه يؤدي إلى الخصومة. ومنها ألا يطأ إحداهما بحضرة الأخرى؛ لأنه دناءة وسوء عشرة. ومنها ألا يستمتع بها إلا بالمعروف، فإن كانت نِضْو الخلق (هزيلة) ولم تحتمل الوطء، لم يجز وطؤها لما فيه من الإضرار.

حكم الاستمتاع أو هل الوطء واجب؟ قال الحنفية: للزوجة أن تطالب زوجها بالوطء؛ لأن حله لها حقها، كما أن حلها له حقه، وإذا طالبته يجب على الزوج."

(البَاب الأوَّل: الزّواج وآثاره، 9 /6598 -6599، ط: دار الفكر)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"وفي القهستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما....إلخ"

(كتاب الطلاق، باب الخلع، 441/3، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101976

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں