بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

’’میں آپ کو طلاق دے چکا ہوں میری طرف سے لاکھ طلاق سمجھو‘‘ کہنے کا حکم


سوال

ایک شخص نے بیوی کو بوقتِ  تنازع کہا:  آپ کا اس گھر سے کوئی تعلق نہیں، آپ اس گھر میں داخل نہیں ہو سکتیں،  میں آپ کو طلاق دے چکا ہوں،  میری طرف سے  لاکھ  طلاق سمجھو۔  اب اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں شوہر کے اس جملہ ’’میں آپ کو طلاق دے  چکا ہوں ‘‘ سے بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوچکی ہے، جب کہ دوسرے  جملے  ’’میری طرف  سے  لاکھ  طلاق سمجھو‘‘ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، کیوں کہ لفظِ  ’’ طلاق سمجھو‘‘ کہنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے؛  لہٰذا   عدت یعنی مکمل تین ماہواریاں (بشرطیکہ بیوی حاملہ نہ ہو) گزرنے سے پہلے تک شوہر کو رجوع کرنے کا اختیار ہے، اگر شوہر تین ماہواری گزرنے سے پہلے رجوع کرلیتا ہے تو نکاح برقرار رہے گا، دوبارہ نئے  سرے  سے  نکاح کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

رجوع کا طریقہ  یہ  ہے کہ شوہر بیوی سے کہے کہ میں آپ سے  رجوع کرتا ہوں، یہ رجوعِ قولی کہلاتا ہے، یا شوہر بیوی کے  ساتھ  زوجین والے تعلقات قائم کرلے، یہ رجوع فعلی کہلاتا ہے، بہتر یہ ہے کہ زبان سے رجوع کیا جائے اور اس پر گواہ بھی مقرر کرلیے جائیں، اس کے بعد جسمانی تعلق قائم کیا جائے، زبان سے رجوع کے بغیر رجوعِ فعلی کرنے کو فقہاء نے مکروہ قرار  دیا ہے۔

لیکن اگر شوہر عدت گزرنے سے پہلے رجوع نہیں کرتا ہے تو بیوی شوہر سے بائن (جدا) ہوجائے گی اور نکاح ٹوٹ جائے گا۔ اس صورت میں بیوی کسی بھی جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہو گی۔

پھر اگر  دونوں ساتھ رہنا چاہیں تو دوبارہ نئے سرے سے دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نکاح کرنا پڑے گا، البتہ آئندہ کے لیے شوہر کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہ جائے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 397):

"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس.

 (قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 409):

"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب".

الفتاوى الهندية (1/ 380):

"امرأة قالت لزوجها: " مرا طلاق ده " فقال الزوج: " داده كيرو كرده كير "  (أي افرضي أنه أعطي و فعل )  أو قال: " داده باد وكرده بادان نوى " يقع ويكون رجعياً وإن لم ينو لايقع ولو قال: داده است أو كرده است يقع نوى أو لم ينو ولايصدق في ترك النية قضاءً، ولو قال: داده إنكار أو كرده إنكار (أي ظني أنه أعطي أو ظني أنه فعل) لايقع وإن نوى".

خیر الفتاویٰ (ج:۵ ؍ ۱۴۷ ) میں ہے:

’’طلاق ہی سمجھو‘‘ کو طلاق نہ سمجھیں:

سوال:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جواب:طلاق ہی سمجھو ’’دادہ انگار‘‘ کے مشابہہ ہے۔ لہٰذا عورت مذکورہ پر طلاق واقع نہیں ہوئی، بلکہ بدستور اپنے خاوند کے نکاح میں ہے‘‘۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200147

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں