بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا طلاق نامہ پر دستخط کرکے اسے پھاڑ دینے کا حکم


سوال

میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے شوہر نے مجھے ایک دفعہ پہلے زبانی طلاق دی تھی کہ "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں "، پھر انہوں نے 21 مارچ کو   تین طلاق والے طلاق نامہ  پر سائن کرکے اسے  پھاڑ دیا (میں نے اسے پھر بھی جوڑلیا ہے، اس پر تین طلاق لکھی ہے )، ان کے علم میں تھا یہ طلاق نامہ ہے اور انہوں نے وہ طلاق نامہ پڑھا بھی تھا، اور مجھے خود لاکر دیا تھا۔

1- آپ سے گزارش ہے کہ اس طلاق کے بارے میں شرعی راہنمائی فرماکر فتوی جاری فرمادیں ۔

2 - نیز عدت کی وضاحت بھی فرمادیں۔

جواب

1- جس طرح طلاق کا لفظ بولنے سے طلاق واقع ہوتی ہے اسی طرح لکھنے سے یا لکھے ہوئے پر دستخط  کرنے سے بھی واقع ہوجاتی ہے ، چنانچہ سائلہ کی ذکرکردہ تفصیل کے مطابق  شوہر  طلاق نامہ  پردستخط سے قبل ایک طلاق زبانی طور پر دے چکا تھا ،  اس لیے فقط دو طلاق کا اختیار اسے حاصل تھا ، بعد ازاں شوہر کی جانب سے  مورخہ 21 مارچ کو تین طلاق والے طلاق نامہ کو پڑھ کر اس پر دستخط کر نے سے بیوی پر مزید دو  طلاقیں بھی واقع ہوچکی ہیں؛ لہذا  میاں بیوی کا نکاح ختم ہوچکا ہے، اب نہ دورانِ عدت رجوع جائز ہے، اور نہ ہی تجدیدِ نکاح کی اجازت ہوگی، عورت عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

2- طلاق کی عدت طلاق دینے کے فوراً بعد شروع ہو جاتی ہے، شوہر کی جانب سے اگر طلاق نامہ 21/03/2022 کو بنوایاگیا ہے تو اسی تاریخ سے عدت کی ابتداء ہوگی ، اور سائلہ کی  عدت کی مدت  مذکورہ تاریخ سے   پوری تین ماہواریاں ہیں اگرحمل نہ ہو ،ورنہ بصورت دیگر  وضع حمل تک عدت شمار ہوگی۔

المحیط البرہانی میں ہے :

"فالمرسومة: أن تكتب على صحيفة مصدراً ومعنوناً وإنها على وجهين: الأول: أن تكتب هذا كتاب فلان بن فلان إلى فلانة أما بعد: فأنت طالق. وفي هذا الوجه يقع الطلاق عليها في الحال.وإن قال: لم أعنِ به الطلاق لم يصدق في الحكم، وهذا لأن الكتابة المرسومة بمنزلة المقال."

(كتاب الطلاق ، الفصل السادس:في إيقاع الطلاق بالكتابات ، ج:3 ، ص:276 ، ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ابتداء العدة في الطلاق عقيب الطلاق وفي الوفاة عقيب الوفاة، فإن لم تعلم بالطلاق أو الوفاة حتى مضت مدة العدة فقد انقضت عدتها كذا في الهداية."

( كتاب الطلاق ، الباب الثالث عشر في العدة ، ج:1 ، ص:  532 / 531 ، ط: دارالفكر )

وفيه ايضا :

"إذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو ثلاثا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء سواء كانت الحرة مسلمة أو كتابية كذا في السراج الوهاج ... وعدة الحامل أن تضع حملها كذا في الكافي. سواء كانت حاملا وقت وجوب العدة أو حبلت بعد الوجوب كذا في فتاوى قاضي خان."

( كتاب الطلاق ، الباب الثالث عشر في العدة ، ج:1 ، ص: 526 / 528 ، ط:دارالفكر )

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308102202

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں