بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا طلاق نامہ بنواکر اس پر دستخط کرنا


سوال

  میرے شوہرنے مجھے کال کرکے کہاکہ میں وکیل کے پاس گیاتھااور طلاق کے پیپر بنوالیے ہیں ،ہماری بات ختم ہوگئی اور پھر پندرہ دن کے بعد انہوں نے مجھے کال کی اور کہاکہ طلاق میں نے واپس لے لی ہے ،میں اس کو یونین کونسل میں رجسٹرنہیں کروارہاہوں۔ہم دونوں نے بات کی اور  پندرہ دن بعدملے بھی ، اور مفاہمت کرلی،انہوں نے میرے گھرطلاق کے پیپرنہیں بھیجے ،نہ ہی کبھی مجھے منہ سے طلاق دی ،نہ ہی لکھ کرمیرے سامنے لائے ۔اب جب کچھ مہینوں بعد وہ مجھے واپس لینے آئے ہیں تو میرے گھر والے کہہ رہے ہیں کہ ہم دونوں ایک دوسرے پر حرام ہوچکے ہیں اور ہماری طلاق ہوگئی ہے،کیوں کہ شوہر نے پیپربنوالیے اور دستخط بھی کیا،چاہے پیپربھیجے یانہیں ،زبان سے بولے یانہیں،اس سے فرق نہیں پڑتا۔آپ شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں  شوہر نے   طلاق نامہ بنوا یا اور   اس پر دستخظ کیے ، لیکن یونین کونسل میں رجسٹر نہیں کرایا اور نہ ہی سائلہ کو بھیجا ،تب بھی طلاق نامہ بنواتے ہی سائلہ پر طلاق واقع ہوگئی ،باقی طلاقوں کی تعداد کا مدار طلاق نامہ میں درج طلاقوں پر ہے، لہذا اگر طلاق نامہ میں تین طلاقیں درج تھیں اور شوہر کو علم بھی تھا کہ طلاق نامہ میں تین طلاقیں ہیں ، تو سائلہ اپنے شوہر پر  حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، دو نوں کا نکاح ختم ہوچکا ہے۔

اور اگر طلاق نامہ  میں  ایک یا دو طلاق درج تھی  تو جتنی طلاقیں طلاق نامہ میں موجود  تھیں اتنی طلاقیں سائلہ پر واقع ہوچکی ہیں، ایک یا دو طلاق کی صورت میں شوہر اگر  سائلہ کی عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہواور اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) میں رجوع کرچکا ہو،چاہے زبان سے رجوع کے الفاظ کہے ہوں   یا میاں بیوی والا تعلق قائم کیا ہو تو دونوں کا نکاح فی الحال برقرار ہے، اور اگر عدت کے اندر  کسی قسم کا رجوع نہیں کیا  تو دونوں کا نکاح ختم ہوچکا ہے، دوبارہ ساتھ رہنے کےلیے ضروری ہے کہ باقاعدہ شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر اور ایجاب وقبول کےساتھ تجدید ِ نکاح کرلیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو."

(کتاب الطلاق،ج3،ص246،ط:سعید)

وفیہ أیضا:

"ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابة."

(کتاب الطلاق،ج3،ص247،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح۔۔۔ولو قيل له: طلقت امرأتك فقال: نعم أو بلى بالهجاء طلقت بحر (واحدة رجعية)."

(کتاب الطلاق ،باب الصریح،ج3 ص247 ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100357

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں