بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا قرض اتارنے کے لیے سسر سے زکاۃ لینا


سوال

بہوزکات  کی مستحق ہے،کیا سسر سے زکات لے کر شوہر کا قرض ادا کر سکتی ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر بہو غریب ہے، نصاب کی مالک نہیں ہے (یعنی اس کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا یاساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے برابررقم یا ضرورت  و استعمال سے زائد سامان نہیں ہے)  اور  وہ  ہاشمیہ (سیدہ/  عباسیہ)  بھی نہیں ہے تو سسر  اپنے ذاتی مال سے اسے (اپنی بہو) کو زکات  دے  سکتا ہے۔اور جب بہو  زکات  کی رقم  کی مالک ہوجائے گی، تو اس کو اختیار ہوگا کہ اس پیسے کو جیسے چاہے خرچ کرے، لہٰذا پھر وہ یہ مال اپنے شوہر کو ہدیہ بھی کر سکتی ہے، تاکہ وہ اس سے اپنا قرض ادا کرلے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2 / 50):

"و يجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم."

الفتاوى الهندية (1 / 190):

"وَ الْأَفْضَلُ فِي الزَّكَاةِ وَالْفِطْرِ وَالنَّذْرِ الصَّرْفُ أَوَّلًا إلَى الْإِخْوَةِ وَالْأَخَوَاتِ ثُمَّ إلَى أَوْلَادِهِمْ ثُمَّ إلَى الْأَعْمَامِ وَالْعَمَّاتِ ثُمَّ إلَى أَوْلَادِهِمْ ثُمَّ إلَى الْأَخْوَالِ وَالْخَالَاتِ ثُمَّ إلَى أَوْلَادِهِمْ ثُمَّ إلَى ذَوِي الْأَرْحَامِ ثُمَّ إلَى الْجِيرَانِ ثُمَّ إلَى أَهْلِ حِرْفَتِهِ ثُمَّ إلَى أَهْلِ مِصْرِهِ أَوْ قَرْيَتِهِ كَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ."

"فتاوی عالمگیری"  میں ہے:

"لايجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي، والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي. ... و لايدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية ۔ ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم، كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة، فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم، كذا في الكافي."

(1/189، باب المصرف، کتاب الزکاة، ط: رشیدیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200205

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں