بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا نوسال تک گھر نہ آنے کی صورت میں بیوی کا دوسری جگہ نکاح کرنے کاحکم


سوال

ایک عورت کے شوہر نے  دوسری شادی کر لی ،9 سال سے گھر نہیں  آیا،طلاق بھی نہیں دی نہ خلع  لینے  دیتے ہیں ،نکاح پر نکاح کا کیا حکم ہے؟  عورت شادی کرنا چاہتی ہے !

جواب

صورتِ  میں مسئولہ میں سائلہ کے شوہر کا نوسال تک گھر نہ آنا اور سائلہ کے حقوق ادا نہ کرنا شرعًاجائز نہیں ،اسی طرح جب سائلہ کو اس کے شوہر نے نہ  طلاق دی ہے اور نہ ہی  آپس میں خلع  کامعاملہ ہواہے  تو اس صورت میں سائلہ اور اس کے شوہر کے درمیان نکاح برقرار ہے، سائلہ دوسری جگہ نکاح نہیں کرسکتی ،باقی   سائلہ  کو  چاہیے  کہ زوجین  کے درمیان اس مسئلہ  کو حل کرانےکے لیے دونوں خاندان کے بزرگ اور معزز سمجھ دار  افراد سے رابطہ کرے ،اگر اس کے باوجود بھی   شوہر اپنے رویے سے باز نہ آئے   تو سائلہ اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے اگر وہ طلاق دینے پر  راضی  نہ ہو تو اس کو کچھ مال وغیر ہ دے کر باہمی رضامندی سے خلع کا معاملہ کرے،اگروہ خلع پربھی راضی نہ ہو تو اس صورت میں سائلہ کسی مسلمان جج کی عدالت سے شوہر کے   نان نفقہ  نہ دینے کی بنیاد پر فسخ نکاح کا مقدمہ  دائر کرسکتی ہے،جس کاطریقہ یہ ہے کہ  سائلہ اولاً عدالت میں شرعی گواہوں کے ذریعے اپنے نکاح کو ثابت کرے ،اس کے بعد شرعی گواہوں کے ذریعے شوہر کے نان نفقہ  نہ دینے   کو ثابت کرے،اگر سائلہ عدالت میں گواہوں کے ذریعے اپنے دعوی کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائےاورعدالت کے بلانے اور سمن جاری  کرنے کے باوجود شوہر حاضر نہ ہوتو عدالت اس نکاح کو فسخ کردے،جس کے بعد عدت گزار کر سائلہ  کادوسری جگہ نکاح کرنا  جائز  ہوگا ۔

بہرحال پہلا  نکاح جب تک برقرار  ہے، دوسرا نکاح  سرے سے   ہوگا ہی نہیں۔

ردالمحتار میں ہے:

"أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا. قال: فعلى هذا يفرق بين فاسده وباطله في العدة، ولهذا يجب الحد مع العلم بالحرمة لأنه زنى كما في القنية و غيرها اهـ ."

(کتاب النکاح ،مطلب في النكاح الفاسد،3/132،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة، كذا في السراج الوهاج."

(کتاب النکاح،القسم السادس المحرمات التي يتعلق بها حق الغير1/280ط:دارالفکر)

فقہ السنۃ میں ہے:

"والخلع يكون بتراضي الزوج والزوجة۔"

(کتاب الطلاق،2/299ط: دارالکتاب العربی)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية."

( کتاب الطلاق ،الفصل الاول فی شرائط الخلع 1/488 ط:رشدیہ )

حیلہ ناجزۃ میں ہے :

"والمتعنت الممتنع عن الانفاق  ففی مجموع الامیر ما نصہ : ان منعھا   نفقۃ الحال فلہا القیام فان لم   یثبت عسرہ  انفق او طلق  و الا طلق علیہ  ، قال محشیہ : قولہ   والا طلق علیہ ای   طلق علیہ الحاکم من غیر تلوم…..الی ان قال: وان تطوع بالنفقۃ قریب اواجنبی فقال ابن القاسم:لہا ان تفارق  لان الفراق قد وجب لہا،  وقال ابن عبدالرحمن:  لا مقال لہا لان سبب الفراق  ہو عدم النفقۃ   قد انتہی وہو الذی   تقضیہ المدونۃ  کما قال ابن المناصب   ، انظر الحطاب، انتہی۔"

(فصل  فی حکم زوجۃ المتعنت،ص:73،ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100124

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں