بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہرکا نان نفقہ ادانہ نہ کرنے کی صورت میں فسخ نکاح کا حکم


سوال

 میری شادی کو اکیس سال ہوچکے ہیں ، تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے ، ان تمام سالوں میں شوہر کا اپنی جاب کی طرف سے غیر ذمہ دار انہ  رویہ ہے ، ہرماہ یاکچھ سال بعد اچانک چھٹیاں شروع کردیتے ہیں ، آفس والوں کو بتائے بغیر ، جس کے سبب ان کی تنخواہ رک جاتی ہے ، پھر معافی تلافی کرکے دوبارہ شروع ہوجاتی ہے ، ایک بار میرے شوہر سے استعفی مانگ لیاگیا، ان حرکتوں کے وجہ سے میرے والدنے دوبچوںکے  پیدائش کے بعد مجھے گھر بٹادیا،اس دوران میرااورمیرے بچوں کا خرچہ  میرے والدین نے اٹھایا ،پھر کچھ عرصہ بعد  خاندان کے بڑے بیچ میں آئے  اور پھر ان کی والدہ   یعنی میرے شوہر کو میری والدہ کے  دوسرے گھر میں ساتھ رہنے بھیچ دیا ،اپنی مرضی سے اور کئی مرتبہ مجھے یہ الزام دیا کہ تمہارے گھر والوں نے مجھے یہاں بسایاہے ، یہاں آنے کے کچھ عرصہ بعد بھی ان کی وہی روش تھی ، جس کی وجہ سے خرچہ میری والدہ کے پیسوں سے چلتاتھا اور ادھار کی نوبت  آئی تھی ، اب پھر اسی وجہ سے  تنخواہ بندہوگی اورپھر خرچہ  میرے والدین کے پیسوں سے چلتارہا   اور کچھ آدھار سے ، بچوں کی فیس ، کپڑوں اور دیگر اخراجات سمیت ، اب میں چھ ماں سے اپنی والدہ کی گھر بیٹھ گئی ہوں اور تاحال وہیں ہوں، بس عید پر سب کا ایک ایک جوڑا بنتاہے شوہر کی تنخواہ سے جبکہ میرے شوہر کی تنخواہ تقریبا ستر ہزار ہے ، اس کے علاوہ عید کے بعد بچوں کی عیدی بھی لے لیتےہیں ، جبکہ عید کے بعد شوہر     کو تنخواہ کے برابر  بونس ملتاہے ، نوکری مجھے کرنے نہیں  دیتے جبکہ میںm, a bed ,ہوں  یہ تعلیم بھی میری والد ہ کے خرچہ سے مکمل ہوئی شادی کے بعد، ان ہی حالات کے دوران میرا زیور بھی بیچاگیا، سوال یہ ہے کہ اگر میں خلع کا مطالبہ کروں تویہ گناہ کے زمرے میں تو نہیں آئے گا، کیوں کے بچے بھی کہتے ہیں کہ والدیعنی میرے شوہرکو بلانے کی  ضرورت نہیں آگے بھی وہ یہی کرے گا۔

جواب

صورت مسئولہ میں سائلہ کے شوہر کا سائلہ اور اپنے بچوں کا  نان نفقہ نہ دینا شرعاجائزنہیں  ، سائلہ کے شوہر پر لازم ہے کہ وہ سائلہ اور اپنے بچوں کا  نان نفقہ ادا کریں  ، اس میں بلاوجہ کوتاہی نہ کرے، سائلہ کو چاہیے کہ اولادونوں خاندانوں کے ذریعےاس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرے  ، اس کے باوجود بھی اگر شوہر اپنے رویے سے باز نہیں آتا تو اسے طلاق یاخلع پر آمادہ کیاجائےاورسائلہ اس صورت میں گناہ گار نہ ہوگی  ۔ اگر شوہر خلع پربھی امادہ  نہ ہو تو اس صورت میں بیویکسی مسلمان جج کی عدالت سے  نان ونفقہ  نہ دینے کی بنیاد پر فسخ نکاح کا مقدمہ  دائر کرسکتی ہے جس کاطریقہ یہ ہے کہ اولاً عدالت  میں شرعی گواہوں کے ذریعے اپنے نکاح کو ثابت کرے اس کے بعد شرعی گواہوں کے ذریعے شوہر کینان ونفقہ  نہ دینےکو ثابت کرے ،اگر بیوی عدالت میں گواہوں کے ذریعے اپنے دعوی کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائے تو عدالت اس نکاح کو فسخ کردے جس کے بعد عدت گزار کر بیوی کا دوسری جگہ نکاح کرنا  جائز  ہوگا اور عدالت کے بلانے اور سمن جاری  کرنے کے باوجود شوہر اگر حاضر نہ ہو تو عدالت کو  شوہر کی غیر موجودگی میں بھی فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہوگا  ۔

الشرح الکبیر وحاشیۃ الدسوقی میں ہے:

" (ووعظ) الزوج (من نشزت) النشوز الخروج عن الطاعة الواجبة كأن منعته الاستمتاع بها أو خرجت بلا إذن لمحل تعلم أنه لا يأذن فيه أو تركت حقوق الله تعالى كالغسل أو الصلاة ومنه إغلاق الباب دونه كما مر والوعظ التذكير بما يلين القلب لقبول الطاعة واجتناب المنكر (ثم) إذا لم يفد الوعظ (هجرها) أي تجنبها في المضجع فلا ينام معها في فرش لعلها أن ترجع عما هي عليه من المخالفة (ثم) إذا لم يفد الهجر (ضربها) أي جاز له ضربها ‌ضربا غير مبرح وهو الذي لا يكسر عظما ولا يشين جارحة ولا يجوز الضرب المبرح ولو علم أنها لا تترك النشوز إلا به فإن وقع فلها التطليق عليه والقصاص ولا ينتقل لحالة حتى يظن أن التي قبلها لا تفيد كما أفاده العطف بثم ويفعل ما عدا الضرب ولو لم يظن إفادته بأن شك فيه لعله يفيد لا إن علم عدم الإفادة وأما الضرب فلا يجوز إلا إذا ظن إفادته لشدته فقوله (إن ظن إفادته) قيد في الضرب دون الأمرين قبله۔"

(الکلام علی احکام النشوز ج2 ص 343 ط:دارالفکر)

حاشیۃ الصاوی علی الشرح الصغیر میں ہے:

"(ثم) إن لم يفد الهجر (ضربها) ‌ضرباً غير مبرح ولا يجوز الضرب المبرح وهو الذي يكسر عظماً أو يشين لحماً، ولو علم أنها لا ترجع عما هي فيه إلا به، فإن وقع فهو جان فلها التطليق والقصاص ومحل جواز الضرب (إن ظن إفادته) وإلا فلا يضرب، فهذا قيد في الضرب دون ما قبله لشدته (وبتعديه) أي الزوج على الزوجة بضرب لغير موجب شرعي، أو سب كلعن ونحوه، وثبت ببينة أو إقرار (زجره الحاكم بوعظ فتهديد) إن لم ينزجر بالوعظ، (فضرب إن أفاد) الضرب أي ظن إفادته وإلا فلا، وهذا إن اختارت البقاء معه (ولها التطليق) بالتعدي إذا ثبت (وإن لم يتكرر) التعدي منه عليها، وليس من الضرر منعها من الحمام والنزاهة وضربها ‌ضرباً غير مبرح على ترك الصلاة ونحوها، بخلاف المبرح كما تقدم۔"

(باب فی النکاح  ج1 ص439 ط:مکتبۃ مصطفیٰ)

حیلہ ناجزۃ میں ہے :

"والمتعنت الممتنع عن الانفاق  ففی مجموع الامیر ما نصہ : ان منعھا   نفقۃ الحال فلہا القیام فان لم   یثبت عسرہ  انفق او طلق  و الا طلق علیہ  ، قال محشیہ : قولہ   والا طلق علیہ ای   طلق علیہ الحاکم من غیر تلوم…..الی ان قال: وان تطوع بالنفقۃ قریب اواجنبی فقال ابن القاسم:لہا ان تفارق  لان الفراق قد وجب لہا،  وقال ابن عبدالرحمن:  لا مقال لہا لان سبب الفراق  ہو عدم النفقۃ   قد انتہی وہو الذی   تقضیہ المدونۃ  کما قال ابن المناصب   ، انظر الحطاب، انتہی۔"

(حیلہ ناجزہ ص: 73،  فصل  فی حکم زوجۃ المتعنت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول، بخلاف ما إذا قال خالعتك ولم يذكر العوض ونوى الطلاق فإنه يقع۔"

( کتاب النکاح باب ا لخلع 3/441،ط: سعید)

فقہ السنۃ میں ہے:

"والخلع يكون بتراضي الزوج والزوجة۔"

(کتاب الطلاق،2/299ط: دارالکتاب العربی)

ہندیہ میں ہے :

"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية."

( کتاب الطلاق ،الفصل الاول فی شرائط الخلع 1/488 ط:رشدیہ )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144306100336

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں