بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے نان نفقہ نہ دینے کی صورت میں عورت کے لیے کیا حکم ہے؟


سوال

میرے شوہر 12 سال سے میرے ساتھ نہیں رہتے،نہ ہی ہمارا کوئی جسمانی تعلق ہے،اورنہ ہی کوئی خرچہ دیتے ہیں کوئی ذمہ داری نہیں اٹھاتے،ہماری علیحدگی ہو گئی ہے یانہیں؟اور دین اسلام کیا کہتا ہےاس بارے میں؟

جواب

واضح رہے کہ  طلاق یا خلع کے  بغیر میاں بیوی جتنا عرصہ بھی علیحدہ رہیں   اس سے ان کے نکاح پر  کوئی اثر نہیں پڑتا،لہذا صورت مسئولہ میں اگر سائلہ کے شوہر نے طلاق یا خلع نہیں دیا تو بارہ سال سے الگ رہنے کی وجہ سے نکاح ختم نہیں ہوا بلکہ  نکاح برقرار ہے،البتہ اگر واقعتًہ سائلہ کا شوہر 12سال کے عرصہ سے سائلہ سے علیحدہ رہتا ہےاور سائلہ کا نفقہ ادا نہیں کر رہا  ،اور نباہ کی کوئی صورت   نہیں بن پا رہی ،تو شرعاً سائلہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شوہر سے طلاق یا خلع کا مطالبہ کرے، اور اگر شوہر کسی بھی طرح طلاق یا خلع پر راضی نہ ہو ،توبحالت مجبوری  پھر سائلہ  کو اپنا نکاح فسخ کروانے کابھی  حق  حاصل ہے ۔

مجبوری کی دو صورتیں ہیں:

1) ایک یہ کہ عورت کے لیے نان نفقہ کا کوئی انتظام نہ ہو ،یعنی نہ تو کوئی شخص عورت کے خرچ کا انتظام کرتا ہو، اور نہ ہی عورت خوداپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرتے ہوئے آمدنی پر قدرت رکھتی ہو ۔

2)دوسری یہ کہ نان نفقہ کا بندوبست تو ہو لیکن عورت کے شوہر سے الگ رہنے میں گناہ میں مبتلا ہونے کا قوی اندیشہ ہو ۔

فسخ یاتفریق کی صورت یہ ہے کہ عورت اپنا مقدمہ  مسلمان جج کی عدالت میں پیش کرے، اور وہ  معاملہ کی شرعی شہادت وغیرہ کے ذریعے سے مکمل تحقیق کرے ،اور اگر عورت کا دعوی صحیح ثابت ہو کہ وسعت کے باوجود شوہر نان نفقہ ادا نہیں کرتا، تو اس عورت کے شوہر سے کہا جائے کہ تم یا تو اپنی بیوی کے حقوق ادا کرو ،یا طلاق دے دو ،ورنہ ہم تفریق واقع کر دیں گے، اس کے بعد بھی اگر وہ شوہر کسی صورت عمل نہ کرے، تو قاضی  اس نکاح کو فسخ کر دے ۔

(ماخوذ از حیلہ ناجزہ ،ص:101،ط:امارت شرعیہ ہند،بہادر شاہ ظفرمارگ نئی دہلی)

بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع میں ہے:

"ولوقوع الفرقة بين الزوجين أسباب لكن الواقع ببعضها فرقة بطلاق، وبعضها فرقة بغير طلاق، وفي بعضها يقع فرقة بغير قضاء القاضي، وفي بعضها لا يقع إلا بقضاء القاضي، فنذكر جملة ذلك بتوفيق الله عز وجل منها.الطلاق بصريحه، وكناياته، وله كتاب مفرد، ومنها اللعان،۔۔۔ومنها اختيار الصغير أو الصغيرة بعد البلوغ في خيار البلوغ۔۔۔ومنها اختيار المرأة نفسها لعيب الجب، والعنة والخصاء والخنوثة۔۔۔ومنها التفريق لعدم الكفاءة أو لنقصان المهر۔۔۔ومنها إباء الزوج الإسلام بعد ما أسلمت زوجته في دار الإسلام، ومنها إباء الزوجة الإسلام بعد ما أسلم زوجها المشرك أو المجوسي في دار الإسلام۔۔۔الخ."

(كتاب النكاح،فصل بيان ما يرفع حكم النكاح،ج:2،ص:336،ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602100956

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں