میری شادی 2016 میں ہوئی، شادی کےبعد شوہر حقوق زوجیت ادانہ کرسکے تو ان کا علاج کروایا گیا،پھر15 دن کےبعد وہ حقوق زوجیت ادا کرسکے، اس کے بعد سے شوہر میری طرف بالکل توجہ نہیں کرتے تھے، میں بہت کوشش کرتی، لیکن میری طرف ان کا کوئی رجحان نہیں ہوتاتھا، میں ناراض ہوکر اپنے میکے چلی گئی،پھر میرے سسرال والے مجھے اس وعدے پرلے کر آئے کہ وہ اپنے بیٹے کا علاج کروائیں گے، تو میں اپنے شوہرکے گھر آگئی،دوبارہ علاج کروانے پر وہ صرف 20 فیصد کے قریب ٹھیک ہوئے،اس کے بعدانہوں نے کچھ مرتبہ مزید حقوق زوجیت ادا کئے، لیکن وہ صحیح طریقے سے اس پر قادر نہیں تھے۔
پھر مجھے پتہ چلا کہ وہ خواجہ سراؤں میں اٹھتا بیٹھتا ہے،اور ان کی محفل میں وقت گزارتاہے،اوراگر کسی کو گناہ (زنا)کے لئے خواجہ سرا چاہیے ہوتا ہے تو میرا شوہر اس کو خواجہ سرا دیتا ہے۔ تو میں نے اس بات کا پختہ ارادہ کرلیا ہے کہ میں شوہر سے خلع لے لوں، میں نے اپنے شوہر کے ساتھ اس حالت میں 8 سال گزار دیئے ہیں،اب میں اس سے خلع لینا چاہتی ہوں،لیکن میرا شوہر اور اس کے گھر والے اس پر کسی طرح تیار نہیں ہیں،میں اپنے والدین کے گھر بیٹھی ہوں ،میں ان سے کس طرح خلع لوں ؟اس معاملے کےحل کی کوئی صورت بتا دیں۔
واضح رہےکہ جس طرح جنسی تسکین اور لذت حاصل کرنامرد کی طبیعت اور ضرورت میں داخل ہے،اسی طرح یہ عورت کی فطرت اور طبیعت میں بھی داخل ہے،اس لیےزیرِ نظرمسئلہ میں سائلہ کے شوہر کے لیے تو حکم یہ ہے کہ اگران میں اپنی بیوی کی خواہش پوری کرنے کی طاقت نہیں ہے،جس کی وجہ سے بیوی سخت ذہنی اذیت کا شکار ہے،تو ان پر لازم ہے کہ طبیب کے مشورےکے مطابق اپناعلاج کروائیں،بصورتِ دیگر اپنی بیوی کو طلاق دے کراپنی زوجیت سے علیحدہ کردیں،تاکہ ان کی بیوی عفت اور پاکدامنی کے ساتھ اپنی بقیہ زندگی گزارسکے۔
اسی طرح شوہر کے بارے میں سائلہ نے جو لکھا ہے کہ وہ خواجہ سراؤں میں اٹھتا بیٹھتا ہےاور گناہوں کے کام میں ان کو استعمال کرنے میں مددگار بنتا ہے،اگر واقعی درست ہےتوشوہرکا دوسروں کو گناہ(زنا) کےلیے خواجہ سرا دینا ناجائز وحرام ہے،شوہر پر اس گناہ سے توبہ کرنا لازم ہے۔
الغرض مذکورہ حالات میں اگر شوہر اپنی اصلاح کرلیتا ہےتو گھر بسانے کو ترجیح دی جائے،بصورت دیگر سائلہ کو یہ اختیار ہےکہ شوہر سےیاتو طلاق کا مطالبہ کرکے طلاق لےلےاوراگر شوہر راضی نہ ہوتو کسی طرح ان کوکسی چیز کے بدلے خلع پر راضی کرکے علیحدگی اختیار کرلے۔عدالت سے رجوع کرکے یکطرفہ خلع حاصل کرنا درست نہیں ہوگا۔
قرآن میں ہے:
"وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ.(سورةالمائدة: 2)"
ترجمہ:" گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو اور الله تعالیٰ سے ڈرا کرو بلاشبہ الله تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں۔"(بیان القرآن، ج: 1، ص: 444، ط: مکتبہ رحمانیہ)
تبیین الحقائق میں ہے:
"(ولا يجوز على الغناء والنوح والملاهي) لأن المعصية لا يتصور استحقاقها بالعقد فلا يجب عليه الأجر...وإن أعطاه الأجر وقبضه لا يحل له."
(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ج: 5، ص: 125، ط: دارالکتاب الإسلامي)
مبسوط میں ہے:
"ولو كان غشيها مرة واحدة ثم انقطع بعد ذلك، فلا خيار لها؛ لأن ما هو مقصودها من تأكد البدل أو ثبوت صفة الإحصان قد حصل لها بالمرة."
(کتاب النکاح، باب العنين، ج: 5، ص: 103، ط: دارالمعرفة)
فتاوی شامی میں ہے:
"(فلو جب بعد وصوله إليها) مرة (أو صار عنينا بعده) أي الوصول (لا) يفرق لحصول حقها بالوطء مرة.
(قوله: لحصول حقها بالوطء مرة) وما زاد عليها فهو مستحق ديانة لا قضاء بحر عن جامع قاضي خان، ويأثم إذا ترك الديانة متعنتا مع القدرة على الوطء ط."
(كتاب الطلاق، باب العنين، ج: 3، ص: 495، ط: سعید)
وفیہ ایضا:
"(قوله: ويسقط حقها بمرة) قال في الفتح: واعلم أن ترك جماعها مطلقًا لايحل له، صرح أصحابنا بأن جماعها أحيانًا واجب ديانةً لكن لايدخل تحت القضاء والإلزام إلا الوطأة الأولى، ولم يقدروا فيه مدةً و يجب أن لايبلغ به مدة الإيلاء إلا برضاها وطيب نفسها به اهـ قال في النهر: في هذا الكلام تصريح بأن الجماع بعد المرة حقه لا حقها اهـ قلت: فيه نظر بل هو حقه وحقها أيضًا لما علمت من أنه واجب ديانةً.قال في البحر: وحيث علم أن الوطء لايدخل تحت القسم فهل هو واجب للزوجة؟ و في البدائع: لها أن تطالبه بالوطء؛ لأن حله لها حقها كما أن حلها له حقه، وإذا طالبته يجب عليه ويجبر عليه في الحكم مرةً والزيادة تجب ديانةً لا في الحكم عند بعض أصحابنا وعند بعضهم عليه في الحكم اهـ"۔
(کتاب النکاح، باب القسم، ج: 3، ص: 202، ط: سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي القهستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما، فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع. اهـ. ط، وهذا هو الحكم المذكور في الآية."
(کتاب الطلاق ،باب الخلع ،ج:3،ص:441،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611100028
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن