ہمارے جاننے والے کا ایک لڑکی سے نکاح ہوا،تقریباً چار سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود رخصتی لڑکے والے نہیں کررہے تھے،تنگ آکر لڑکی نے طلاق کا مطالبہ کیا،لڑکے نے انکار کیا،چناں چہ لڑکی نے عدالت سے رجوع کرکےتنسیخ نکاح بذریعہ خلع کروالیا، جس کے کاغذات سوال نامہ کے ساتھ منسلک ہیں،سوال یہ ہےکہ اس طرح خلع واقع ہوجاتی ہے یا نہیں؟ خلع نامہ پر شوہر نے انگھوٹے بھی لگوایا ہے،اگر خلع ہوگیا ہے،تو عدت کیا ہوگی؟
صورتِ مسئولہ میں سوال نامہ کے ساتھ جو تنسیخِ نکاح بذریعہ خلع کے کاغذات لگے ہوئے ہیں،اس میں اس بات کی صراحت ہے کہ جج نے شوہر کے سامنے بیوی کو تنسیخ نکاح بذریعہ خلع کی ڈگری جاری کی،جس پر میاں بیوی دونوں نے دستخط کیے،شوہر کا خلع نامہ پر دستخط کرنے سے اس کی بیوی پر طلاق بائن واقع ہوچکی ہےاور اس بات کی صراحت موجود ہے کہ بیوی اپنے مہر سے دستبردار ہوجائے،لہذا شوہر کے ذمے کوئی مہر لازم نہیں ہوگا،چوں کہ صورتِ مسئولہ میں بیوی کی رخصتی نہیں ہوئی،رخصتی سے پہلے اس پر طلاق واقع ہوچکی ہے،بیوی پر کوئی عدت لازم نہیں ہے،بیوی دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے۔
مبسوط سرخسی میں ہے:
"والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض."
(کتاب الطلاق ، باب الخلع ، 173/6 ، ط: دار المعرفة)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."
(کتاب الطلاق ،فصل في شرائط ركن الطلاق وبعضها يرجع إلى المرأة، 145/3 ،ط: دارالکتب العلمیة)
وفيه ايضاً:
"وأما إن كان ببدل فإن كان بغير بدل بأن قال: خالعتك، ونوى الطلاق فحكمه أنه يقع الطلاق، ولا يسقط شيء من المهر، وإن كان ببدل فإن كان البدل هو المهر بأن خلعها على المهر فحكمه أن المهر إن كان غير مقبوض أنه يسقط المهر عن الزوج."
(كتاب الطلاق، فصل في حكم الخلع، 151/3، ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية."
(كتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع وما في حكمه، الفصل الأول في شرائط الخلع وحكمه، 488/1، ط: دار الفكر بيروت)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وإن فرق) بوصف أو خبر أو جمل بعطف أو غيره (بانت بالأولى) لا إلى عدة (و) لذا (لم تقع الثانية) بخلاف الموطوءة حيث يقع الكل وعم التفريق."
(كتاب الطلاق، باب طلاق غير المدخول بها، 286/3، ط: سعید)
منحۃ الخالق علی البحر الرائق میں ہے:
"إذ لو كانت غير مدخول بها تبين بأول مرة فلا يلحقها ما بعدها من المرات لأنها بانت بلا عدة."
(كتاب الطلاق، باب ألفاظ الطلاق، فصل في إضافة الطلاق إلى الزمان، 311/3، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511102437
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن